Breaking News
Home / Columns / امریکہ طالبان مذاکرات کا ابھرتا ہوا منظر نامہ

امریکہ طالبان مذاکرات کا ابھرتا ہوا منظر نامہ

iftkhar bhutta

امریکہ طالبان مذاکرات کا ابھرتا ہوا منظر نامہ
افتخار بھٹہ
11ستمبر2011کو امریکہ پر حملوں کے بعد اس نے اپنی اتحادی فوجوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر قبضہ کر کے طالبان حکومت کو ہٹا دیا تھا جو اس کے نزدیک عالمی دہشت گردی کو روکنے کےلئے ضروری تھا ، جس کی جڑیں افغانستان میں تھیں ۔مگر کئی سالوں سے جاری بے معنی اس طویل جنگ کے بعد امریکہ اس نتیجہ پر پہنچا کے معاملات کو ڈائیلاگ کے ذریعے حل کیا جائے یہی وجہ ہے دوحہ قطر میں امریکہ کے طالبان کے ساتھ مذاکرات ہوئے جن میں پاکستان نے سہولت کاری کا کردار ادا کرتے ہوئے دونوں حریف گروپوں کو میز پر بٹھا دیا ۔ کچھ حلقوں کے مطابق پاکستان کے مقتدرہ اداروں نے طالبان کے پاکستان میں رہنے والے خاندانوں پر دباﺅ ڈال کر انہیں اکٹھا بٹھایا ہے ۔افغانستان میں جاری خانہ جنگی اور طالبان کے حملوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو بظاہری طور پر طالبان کا پلڑا بھاری دیکھائی دیتا ہے اور وہ امریکہ سے زیادہ شرائط منوانے کی پوزیشن میں ہیں وہ امریکی افواج کے انخلاءاور نئے آئین کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ موجودہ افغان حکومت کے بارے میں کوئی نرم رویہ نہیں رکھتے ہیں یہی وجہ ہے دوحہ قطر اور روس میں ہونے والے مذاکرات میں افغان حکومتی نمائندوں نے شرکت نہیں کی ہے جبکہ روس میں صرف افغانستان کے سابق صدر نے شرکت کی ہے ۔افغان طالبان جو کہ ماضی قریب میں القاعدہ کے زیر اثر رہے ہیں اور آج کل ان کے کچھ گروہ آئی ایس ایس (اسلامی اسٹیٹ) کے نظریاتی حریف ہیں۔امریکہ کو ان جنگجوﺅں سے کافی تحفظات حاصل ہیں اور وہ ضمانت چاہتا ہے کہ طالبان انہیں مستقبل میں فعال نہیں ہونے دینگے ، اس طرح افغانستان کے امن کےلئے امریکی فوج کا انخلا ءاور اقتدار کی منتقلی خاصے اہمیت کے حامل ہیں۔افغان اور امریکہ کے خالیہ مذاکرات کے دوران حال ہی میں ایران اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے خود کش حملے حالات کو بگاڑ کی طرف لے جا سکتے ہیں ۔
افغانستان کے بارے میں تاریخ خود کو دوہرا رہی ہے ۔تین دہائیوں قبل امریکہ نے یورپی اور عرب اتحادیوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے تعاون سے مسلح جہادی لشکروں کے ذریعے سوویت یونین کوافغانستان چھوڑنے پر مجبور کیا تھا مگر اس نے وہاں پر اپنی کوئی نمائندہ حکومت کے انتظامات کرنے کی بجائے اس جو افغان گروہوں کی باہمی خانہ جنگی کےلئے چھوڑ کر چلتا بنا جس سے پوری دنیا میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا اور سب سے زیادہ متاثر پاکستان ہوا یہاں پر ہزاروں افراد دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہوئے پاکستان میں فرقہ ورانہ انتہائی پسندی میں اضافہ ہوا ملک کی مخصوص مسلک رکھنے والی مذہبی جماعتوں نے انتہا پسندوں کی بھرپور اخلاقی حمایت کی جس کےلئے آج بھی ان کے دلوں میں نرم گوشہ موجود ہے ۔طالبان کی موجودہ سودہ بازی صلاحیتوں کے بارے میں انہیں یقین ہے کہ اگر وہ امریکہ سے اپنی اسلامی نظام کے بارے میں شرائط کو منوا لیتے ہیں تو اس سے ان کو پاکستان میں سیاسی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے جس کی وہ خواہش رکھتے ہیں ۔
2014میں امریکہ نے افغانستان کے ساتھ ایک سیکیورٹی پیکٹ کیا تھا جس سے امریکہ کو افغانستان کے نو فوجی اڈوں تک 2014تک رسائی حاصل ہوئی امریکہ نے ترقیاتی کاموں کےلئے بھارت کو افغانستان میں رسائی دی جہاں پر اس نے بے پناہ سرمایہ کاری کر کے موجودہ حکومتی اتحاد سے بہتر تعلقات بنائے اب جب امریکہ افغانستان کو چھوڑنے کے بارے میں غور کر رہا ہے تو یقینا اس خلاءکو بھارت ہی پر کرے گا کیونکہ اس نے ایران کی چاہ بہار بندر گاہ کے ذریعے خوشی سے سامان تجارات کی بلا روک ٹوک ترسیل کا راستہ بنا لیا ہے ۔مگر طالبان کے بقول امریکہ فوری طور پر افغانستان کو چھوڑنا چاہتا ہے مگر ایسا نظر نہیں آ رہا کیونکہ اس کےلئے غیر مستحکم افغانستان کو چھوڑ کر جانا مستقبل میں علاقے کے امن کو بگاڑ سکتا ہے دوسرے داعش بھی افغان طالبان کےلئے چیلنج بن سکتی ہے ۔
افغان طالبان کے ساتھ اگر معاہدہ طے پا جاتا ہے تو اس کے بارے میں کیا ضمانت ہے کہ وہ اپنے نظریاتی تناظر میں عورتوں کے بارے میں ماضی کے رویے کو تبدیل کر لیں گے جو انہوں نے 1996سے 2001کے دوران خواتین کے ساتھ روا ں رکھا تھا جو کہ ان کے طرز عمل کا روشن پہلو نہیں تھا ، کیا ان کے اقتدار میں آنے کے بعد خواتین کے ساتھ ماضی کا سلوک اور رویہ تو نہیں عود کر آئے گا۔وہ تو ملک کے قانون اور آئین کا احترام نہیں کرتے ہیں، وہ ملک میں مکمل بلا شرکت غیر منتقلی چاہتے ہیں اور موجودہ افغان حکومت کے ساتھ پاور شیئرنگ کےلئے تیار نہیں ہیں اس طرح انہیں اپنے حق کے بارے میں شرائط منوانے پر خاصی مشکل در پیش ہو سکتی ہے ۔اگر طالبان اپنی شرائط منوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس میں پاکستان کی بھی فتح ہے کیونکہ اس عمل سے مسلح گروہوں کی پاکستان میں آمدو رفت میں کمی ہو سکتی ہے۔ پچھلے سال صدر ٹرمپ نے اپنی ٹویٹ میں لکھا تھا پاکستان میں ہمیں جھوٹ اور دھوکے اور ہمارے لیڈروں کو بے قوف بنانے کےلے کچھ نہیں دیا ہے انہوں نے دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی ہیں جن کا نشانہ ہم بنے ہیں ۔ اس بات کو یاد رکھنا چاہیے جب ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اعلان کیا تھا کہ امریکہ افغانستان میں جنگ جیتنے کی کوشش کرے گا مگر دو سال بعد احساس ہوا کہ افغانستان میں انتہا پسند دوبارہ جنگ جیتنے کی پوزیشن میں ہیں ۔ موجودہ تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ اور طالبان دونوں ہی اس طویل جنگ سے تنگ آ چکے ہیں دونوں ہی مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر معاملات طے کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔امریکہ نے شام سے فوجوں کے انخلاءکا اعلان کیا ہے عالمی طاقتوں کی جارحیتوں اور پراکسی جنگوں نے افغانستان سے لیکر یمن، لیبیا، عراق اور شام تک جس طرح پورے کے پورے سماجوں کو برباد کیا ہے ان کی تعمیر اب سرمایہ دارانہ نظام میں ممکن نہیں ہے ۔ الٹا یہ زیادہ پچیدہ ہوگئے ہیں اب معاملات کو صرف مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے ۔امریکی صدر اوباما نے اپنی صدارت کے آخری ایام میں مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کی تجویز دی تھی مگر ٹرمپ نے جنگ جیتنے کا نعرہ لگا دیا تھا ۔´
آج امریکی انتظامیہ طالبان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتی ہے ان کا نام انٹر نیشنل دہشت گردوں کی فہرست میں شامل نہیں ہے حالانکہ انہوں نے ہزاروں سویلین حضرات کو ہلاک کیا ہے ۔اوباما نے ان مسلح گروہوں کے ساتھ مذاکرات کی اجازت دی تھی اور ایک سال قبل طالبان لیڈروں کو مذاکرات کےلئے امریکہ بلایا تھا کافی عرصہ سے پاکستان میں مقیم افغان لیڈر شپ پر کوئی ڈرون حملے نہیں ہوئے ہیں اس کے علاوہ امریکہ نے افغانستان کے اندر اپنی فوجی کارروائیوں میں کمی کی ہے ۔ افغانستان میں امریکہ کے ملٹری کمانڈروں نے کہا ہے کہ طالبان کو شکست دینا نا ممکن ہے کیونکہ انہیں اندرونی اور بیرونی امداد اور پناہ گاہیں حاصل ہیں ، امریکہ بظاہری طور پر اپنے تخلیق کئے ہوئے گروہوں کے گھیرے میں دکھائی دیتا ہے، طالبان القاعدہ نے شر پسند مسلح گروہوں کی کوکھ سے سے جنم لیا ہے جن کو سی آئی اے اور پاکستان نے 1980میں جنگ کےلئے تیار کیا تھا ۔تاریخ کے سب سے شدید اور بڑے دہشت گردی کے امریکہ پر حملوں کے بعد وہ فوجی کارروائی کرنے پر مجبور ہوا مگر وہ اب فیس سوینگ کےلئے افغانستان سے باہر نکلنا چاہتا ہے ، کیونکہ اسکا امن بحالی کا منصوبہ ناکام ہوا ہے اور دوبارہ انہیں افغان گروپس کو اقتدار منتقل کرنا چاہتا ہے افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان حالیہ بات چیت سے قیام امن کی امید بندھی ہے ۔مذاکرات میں کامیابی پاکستانی عسکریت پسندوں کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ افغانستان میں پناہ لےے ہوئے ہیں اس کے ساتھ پاک افغان دو طرفہ تجارت اور سلامتی سرحد کے مطلق معاملات بھی طے کرنے میں مدد ملے گی۔ پاکستان کے مقتدرہ ادارے کے افراد کا کہنا ہے افغان طالبان کے ساتھ بات چیت سے دوہری جنگ کا خطرہ ٹل جائے گا یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پاکستان کے مقتدرہ طبقات ہمیشہ مذہبی جماعتوں کے ساتھ معاملات طے کرنے میں آسانی محسوس کرتے ہیں جبکہ جمہوری یا قوم پرست گروہوں کے بارے میں ان کا روایہ ایسا نہیں ہے اس لےے ہو سکتا ہے کہ افغانستان میں امن بحالی کے بعد پاکستان طالبان کی حکومت کے قائم ہونے کے بعد معاملات کو بہتر طریقے سے چلا سکتا ہے ۔اس سے پختونخواہ میں موجودہ ریاست مخالف عناصر کو ختم کرنے میں مدد ملے گی پاکستان میں مقیم افغانوں کےلئے دوبارہ منتقلی کی راہ ہموار ہوگی ۔فاٹا کے علاقہ جات کے صوبہ پختونخواہ میں انضمام کے ساتھ نئے دور کا آغاز ہونے جا رہا ہے جہاں پر عوام کو بنیادی حقوق حاصل ہونگے۔ انصاف انتظامیہ کے نئے ادارے بنےں گئے۔ اس روڈ میپ کے ثمرات حاصل کرنے کےلئے افغانستان میں امن کا قیام ضروری ہے تا کہ چالیس سال سے افغان جنگ کے اثرات سے دو چار آبادی جمہوری اور آئینی حقوق سے مستفید ہو سکے اور پاکستانی حکومت پسماندہ علاقوں کی ترقی کےلئے اپنا بھرپور کردار ادا کر سکے۔پاکستان کے سعودی عرب ، قطر اور دیگر متحدہ عرب امارات کے ممالک کے ساتھ بڑھتے ہوئے معاشی امدادی پیکج کو بھی افغانستان میں بحالی کے عمل کے تناظر میں ایک اہم پیش رفت سمجھا جا سکتا ہے۔

About Daily City Press

Check Also

پلاسٹک موت کی گھنٹی

عظمی زبیر پلاسٹک موت کی گھنٹی ! پلاسٹک کا طوفان، پنجاب کی بقا کا سوال …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *