صورتحال
ہارون عدیم
” بیل آوٹ پیکج۔۔۔؟ “
برطانوی میڈیا کے مطابق ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے آئی ایم ایف سے ممکنہ گریز کی وجہ سعودی دولت پر انحصار ہو سکتا ہے،رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکومت کی سعودی وفد سے توانائی کے بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لئے بھی بات چیت ہو رہی ہے،رپورٹ کے مطابق پاکستان نے سعودی حکومت سے تیل کی تاخیر سے ادائیگی کے معاہدے کی بھی بات کی ہے،جس پر سعودی حکومت غور کر رہی ہے۔دوسری جانب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے قطری نائب وزیر اعظم /وزیر خارجہ سے ملاقات کی ، ملاقات میں قطر کے نائب وزیر اعظم /وزیر خارجہ نے ایک لاکھ پاکستانیوں کو روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے، جب کہ زراعت،خوراک اور دیگر شعبوں میں تجارتی حجم بڑھانے پر بھی اتفاق رائے ہوا ہے، چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی کہا ہے کہ پاکستان سے مل کر ترقی کے عمل کو جاری رکھیں گے،چین پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ تیزی سے اپنے تعلقات کو فروغ دے رہا ہے۔یاد رہے کہ 16اکتوبر بروز بدھ وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا تھا کہ قرضوں کی ادائیگی کے لئے پیسہ نہیں،کشکول لے کر پھر رہا ہوں، آئی ایم ایف کا بیل آو¿ٹ پیکج ناگزیر ہے، جبکہ اسی روز اے پی این ایس کے وفد سے ملاقات میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ان کی کوشش ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس نہ ہی جایا جائے اور دوست ممالک سے مدد مانگی جائے، ذرائع کا کہنا ہے کہ کویت، قطر،سعودیہ اور چین نے پاکستان کو امید دلائی ہے کہ وہ ”پاکستان کے بیل آو¿ٹ پیکج کے لئے اپنا اپنا حصہ ڈالنے کے لئے تیار ہیں، برطانوی رپورٹ جہاں اس بات کی تصدیق کرتی ہے وہاں اینگلو امریکن گٹھ جوڑ کے بڑے پارٹنر اور حواریوں کو خبر دار کرتی ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے بیل آو¿ٹ پیکج کے لئے امریکن شرائط شاید کار گر نہ ہوں،کیونکہ سعودیہ پاکستان کو اس اقتصادی زعف سے چھٹکارا دلوانے کے لئے آمادہ ہو گیا ہے، جبکہ نومبر کے پہلے ہفتے میں وزیر اعظم پاکستان کا چین کا دورہ بھی صورتحال بدلنے کی نوید دے رہا ہے۔ہم یہ بات پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی معیشت اور اقتصادیات کا فوری مسئلہ آئی ایم ایف کی قسط کی ادائیگی ہے، ورنہ ایسے اشارے موجود ہیں جو پاکستانی معیشت اور اقتصادی بہتری کی امید دلاتے ہیں، وزیر خزانہ کا یہ کہناکہ کشکول لے کر پھر رہا ہوں در حقیقت ان کوششوں کی جانب اشارہ ہے جو وہ آئی ایم ایف کے چنگل سے بچنے کے لئے کر رہے ہیں، بے شک اس میں کوئی دو آرا نہیں کہ عمران خان اور ان کی ٹیم آئی ایم ایف کی غلامی قبول کرنے پر موت کو ترجیح دیتے رہے ہیں، وہ بیرونی قرضوں کو بھی ایک لعنت قرار دیتے رہے ہیں، مگر کیا یہ ممکن ہے کہ اس وقت جو قومی خزانے اور زر مبادلہ کے ذخائر کی حالت ہے اس میں اس اقتصادی زعف سے نکلا جا سکے۔۔۔۔؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی اور خزانے خالی ہونے کا ذمہ دار کون ہے۔۔۔؟کیا ایسا 60دنوں میں ہونا ممکن ہے۔۔۔؟یا یہ ایک طویل اقتصادی بد حالی اور حکمت عملی کا تسلسل ہے۔۔۔؟
یقینا موجودہ حکومت کی نیّت پر شک نہیں کیا جا سکتا، اگر وہ آئی ایم ایف کے پاس بھی جاتے ہیں تو ملک بچانے کے لئے اور اگر دوستوں سے مدد مانگتے ہیں تو بھی ملک بچانے کے لئے، یقنیاً انہیں وہی کچھ کرنا ہو گا جو ملکی اور قومی مفاد میں ہے، کیونکہ عالمی سطح پر ایسے باتیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ سعودی پاکستان کو بیل آو¿ٹ پیکج دینے سے اس لئے ہچکچا رہا تھا کہ اس پر امریکی دباو¿ تھا، کچھ عالمی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سعودی حکمرانوں کو امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنانا، خود کو سعودی حکومت کی سلامتی کا ضامن قرار دینا اور شہزادہ سلمان کو گم شدہ سعودی صحافی کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرانے کی سازش در حقیقت سعودی حکومت کو پاکستان سے قربتیں بڑھانے ، سی پیک کا حصہ بننے سے روکنا ہے۔ مگر شاید سعودی حکمرانوں نے یہ باور کر لیا ہے کہ خطے میں امن قائم کرنے، دہشت گردی کے خاتمے میں تب تک کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی جب تک پاکستان اس عمل کا شریک نہ ہو، دوسری اہم بات بدلتے حالات نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ سعودیہ کے لئے پاکستان کی اہمیت امریکا سے زیادہ ہے ، لہٰذا پاکستان کو اہمیت دینااس کی مجبوری ہے۔مگر تاریخ کے اس نازک موڑ پر ملکی اپوزیشن کا کردار سوالیہ بن گیا ہے، یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ان کی وفاداری پاکستان کے ساتھ ہے یا کہ ملک دشمنوں کے ساتھ۔۔۔؟ کیا ملک کو اس اقتصادی زعف سے نکالنا صرف حکومت کی ذمہ داری ہے یا اپوزیشن کی ذمہ داری بھی ہے۔۔۔؟کیا تنقید کرنے سے ملکی معیشت بہتر ہو جائے گی یا اس کے لئے عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہے، اس عمل میں اگر اپوزیشن شامل نہیں ہوتی اور وہ بہتری کے کام اس لئے نہیں ہونے دیتی کہ پر حکومتی ہیٹ میں سجے گا تو کیا قوم انہیں معاف کرے گی۔۔۔؟شاید اس بات کا تذکرہ یہاں نہیں بنتا مگر عوامی سوچ اور روّیے کی نشاندہی کے لئے اسے ریکارڈ پر لانا ضروری ہے ایک پاکستانی نے ہم سے سوال کیا کہ اگر عمران خان کی چھوڑی دو سیٹیں ہارنے کو عوامی موڈ کا بدلنا کہا جا رہاہے تو ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے زیادہ سیٹیں لینے کو کیا کہا جائے گا۔۔۔؟ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ملکی اقتصادیات کو بہتر بنانے کے لئے ہمیں ماضی سے سبق سیکھنا ہو گا، ہم نے پہلے بھی انہیں صفحات پر عرض کی تھی کہ ”ڈالر کی حالیہ پرواز پر جنرل پرویز مشرف کا دور حکومت یاد آتا ہے، جس میں انہوں نے ڈالر کو60اور62روپے کے درمیان برقرار رکھا، ملک ماس پروڈکشن کی حالت میں آ گیا، آٹو موبائل، گھریلو مشینری جس میں ائیر کنڈیشنر، فریج ، ڈیپ فریزر اور واشنگ مشینیں شامل تھیں ماس پروڈکشن کی وجہ سے سستی ہو گئیں، کیا وجہ ہے کہ پی پی پی اور ن لیگی حکومتیں اس ترقی کو برقرار نہیں رکھ پائیں، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ اس ترقی میں مزید بہتری لاتیں، مگر حقائق تلخ ہیں، گزشتہ دونوں حکومتیں(پی پی پی اور ن لیگ)اپنی کوتاہیوں کا ملبہ مشرف پالیسیوں پر ڈالتی رہی ہیں، مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ مشرف حکومت کو بھی نواز حکومت نے اقتصادی بد حالی ورثے میں دی تھی، ایسے شاٹ اور مڈ ٹرمز قرضوں کی بہتات تھی جن کا مارک اپ یا شرح سود30تا40فیصد تھا، مشرف حکومت نے سب سے پہلے وہ قرضے اتارے پھر فرانس اور سعودیہ سمیت دوست ممالک سے ایک فیصد سے7فیصد کے مارک اپ سے قرضے حاصل کئے، بڑے قرضوں کو 7ساال تک کے لئے فریز کروا لیا، یہ طے پایا کہ سود 7سال بعد شروع ہو گا، جس نے پاکستانی معیشت میں بہتری پیدا کی، تاریخ گواہ ہے کہ مشرف دور میں میڈیا میں آئی ایم ایف کی قسط ادا کرنے کے لئے خالی خزانے اور آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کی خبریں کبھی نہیں شائع ہوئیں۔دوسرا اہم کام جو مشرف نے کیا وہ امداد حاصل کرنے کی بجائے تجارتی حجم بڑھانے پر فوکس کیا اور ڈونر ملکوں سے مطالبہ کیاکہ وہ پاکستانی مصنوعات کو اپنی تجارتی منڈیوں میں کھپنے دیں۔کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم اس تجربے کو ایک بار پھر دہرائیں، جس سے پاکستانی معیشت کے آئی سی یو سے باہر آنے کے امکانات ہیں۔ہمیں نہیں معلوم کی عمران خان کے اکانومی تھنک ٹینک کس نہج پر سوچ رہے ہیں،اور کیا پالیسی بنا پائے ہیں جس پر ہنوز عمل ہونا باقی ہے، مگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر مشرف کے اٹھائے گئے اقدامات اٹھائے جائیں تو معاشی آسودگی حاصل کی جا سکتی ہے۔
Tags column haroon adeem