Breaking News
Home / Columns / ”راہ پیا جانے یا واہ پیا جانے“

”راہ پیا جانے یا واہ پیا جانے“

haroon adeem logo

صورتحال
ہارون عدیم
”راہ پیا جانے یا واہ پیا جانے“
ہمارے پنجاب میں ایک اکھان (ضرب المثل) ہے کہ ” راہ پیا جانے یا واہ پیا جانے“ ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک کسی بھی فرد کے ساتھ آپ سفر نہیں کرتے یا اس کے ساتھ لین دین نہیں کرتے تب تک اس کا کردار آپ پر عیاں نہیں ہو سکتا۔دوسرے لفظوں میں انسانوں کی پہچان صرف ان دو طریقوں سے ہی کی جا سکتی ہے کہ یا تو ان کے ساتھ سفر کیا جائے یا ان سے باہمی لین دین کیا جائے۔بزرگ اکثر یہ کہاوت دہراتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنے ایک دوست کے بیٹے سے اپنی بیٹی کا رشتہ طے کر دیا۔جب اس شخص نے رشتہ طے کرنے کے بعد اپنے بزرگوں کو اس کی اطلاع دی تو ایک بزرگ نے اس شخص سے پوچھا کہ کیا تم اس شخص کو مکمل طور پر جانتے ہو، اس شخص نے جواب دیا کہ جانتا ہوں تبھی تو اس کے بیٹے کے ساتھ اپنی بیٹی کا رشتہ طے کیا ہے ۔ایک بزرگ نے پھر سوال کیا اور پوچھا کہ کیاکبھی تم نے اس کے ساتھ سفر کیا ہے، اس شخص نے جواب دیا کہ نہیں۔ایک دوسرے بزرگ نے اس سے سوال کیا کہ کیا کبھی تم نے اس کے ساتھ پیسوں کا لین دین کیا ہے ۔اس شخص کی طرف سے اس بار بھی نفی میں جواب آیا۔تب بزرگوں نے اس شخص کو کہا کہ تمہارا دعویٰ غلط ہے کہ تم اس کو جانتے ہو ۔نہ تو تم نے اس کی رفاقت میں کوئی سفر کیا ہے اور نہ ہی کبھی کوئی لین دین کیا ہے لہٰذا تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ تم اسے مکمل طور پر جانتے ہو۔سیانے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسانوں کے باطن اور اصل کردار کا پتہ جیل اور پردیس میں بھی چلتا ہے۔ مجھے یاد ہے اور یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ جب 1980 میں لاہور میں فیض صاحب کی سالگرہ منائی گئی تو اس کی پاداش میں دوسرے منتظمین اور شرکاءکی طرح فلمسٹار ننھا اور محمد علی کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا تھا،تب فلمسٹار محمد علی کی اہلیہ فلم سٹارزیبا نے عدالت میں درخواست دائر کی کہ ان کا میاں دل کے عارضہ کا شکار ہے اور وہ کال کوٹھری میں نہیں رہ سکتا لہٰذا اسے ہسپتال میں رکھا جائے،عدالت نے فلمسٹار زیبا کی درخواست مان لی اور ان کے خاوند کو ہسپتال منتقل کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔مگر فلمسٹار محمد علی نے ہسپتال منتقل ہونے سے انکار کر دیا ،انہوں نے کہا کہ وہ بالکل ٹھیک ہیں اور اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ہی رہنا پسند کریں گے۔یہ درخواست ان کی بیوی نے ان کی محبت میں دائر کی ہے، مگر وہ یہ تکلیف بڑی آسانی سے جھیل سکتے ہیں ،مگر اپنے ساتھیوں سے علیحدہ نہیں ہو سکتے۔
2002 میں جب ہم ورلڈ پنجابی کانگرس کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی دوسری عالمی پنجابی کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن آئے تو راولپنڈی کے ممتاز شاعر اور ماہر تعلیم اور براڈکاسٹر اور ہم ابو ظہبی کے ایر پورٹ پر مل گئے، لہٰذا طے یہ پایا کہ ہم لندن میں اکٹھے ہی رہیں گے۔موصوف نے ہمیں سربراہ بنا دیا اور حکم صادر کیا کہ جہاں جہاں خرچہ ہونا ہے یا کوئی فیصلہ کرنا ہے تو وہ ہم کریں گے اور بعد میں خرچہ برابر تقیسم کر لیا جائے گا۔ جب ہم لندن ائیر پورٹ پر اترے تو پتہ چلا کہ ہمیں خود ہی انڈر گراو¿نڈ ریلوے سے والتھم سٹو جانا ہو گا۔بہر حال ہم وہاں اپنے میزبان امین ملک کے گھر پہنچے،اور وہ رات ہمیں امین ملک کے گھر ہی قیام کرنا پڑا۔کیونکہ ہمارے قیام کا ابھی بندوبست نہیں ہو پایا تھا۔اگلے دن جناب فضل الٰہی بہار بھی تشریف لے آئے لہٰذا انہوں نے بھی اعلان کر دیا کہ ”جہاں ہم وہیں وہ “۔اسی شام ہمیں گردوارا روی داس میں بھیج دیا گیا،جہاں ہمارے میزبان تیرتھ رام بالی اور گوربخش سنگھ تھے جو کہ بالترتیب گرداورے کے جنرل سیکرٹری اور نائب صدر تھے۔گردوارے کے منتظمین نے اپنے کمیونیٹی ہال کے جم کو ہماری رہائش گاہ میں بدل دیا تھا۔ زمین پر میٹرس ڈال دیئے گئے تھے۔ لہٰذا پہلی رات تو ہم تینوں یعنی فضل الٰہی بہار ،موصوف اور ہم اکٹھے رہے مگر اگلے ہی روز موصوف ہمیں چھوڑکر اپنے ایک عزیز کے ہاں شفٹ ہو گئے کیونکہ واش روم اور ٹائلٹ بھی خاصے فاصلے پر تھے ۔اور وہ آرام دہ ماحول نہیں تھا جو شاید موصوف سوچ کر آئے تھے۔اسی دن حکیم فضل الٰہی بہار کا ایک بھانجا انہیں لینے کے لئے آ گیا مگر حکیم صاحب نے جانے سے انکار کر دیا۔انہوں نے کہا کہ جب تک ہم وہاں موجود ہےں وہ ہمارے ساتھ ہی رہیں گے۔اب یہ الگ بات ہے کہ ہمارے میزبانوں نے ہمیں اپنی مہمانداری /میزبانی سے ہر گام پر شرمندہ کیا۔انہوں نے ہمارے سکھ اور آرام کے لئے اپنے دل وجان فرش راہ کر دیئے۔ کانفرنس کے اختتام کے بعد انہوں نے ہمیں لندن گھمایا،ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ ہماری ایک پائی بھی خرچ نہ ہونے دیں۔اور جب ہم وطن لوٹے تو انہوں نے ہمیں تحائف سے لاد دیا۔مگر ان کے اعلیٰ ظرف ہونے کا پتہ تب چلا جب 2003 میں ہمیں کینڈا پنجابی کانفرنس کے لئے جانا تھا، آخری لمحات میں پتہ چلا کہ ویزہ نہیں دیا گیا ،چونکہ ہم اپنی ایکس پاکستان چھٹی لے چکے تھے لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم یہ چھٹی لندن میں گزارتے ہیں۔ہم نے بالی کو فون پر اپنی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے ہمیں فوراً جہاز پر بیٹھنے کے لئے کہا، ہم نے کوئی پندرہ دن ان کے ساتھ قیام کیا ۔پہلے والی پر تپاکی اور میزبانی دوگنا ہو چکی تھی۔خالی بیگ لائے تھے۔تحائف سے بھرا ہوا لے کرواپس گئے۔اس دفعہ ایک اور دوست کے سی کا اضافہ ہوا وہ بھی گوربخش اور بالی کی تصویر ہیں۔جبکہ ڈاکٹر منجیت اور بلبیر سنگھ جیسے محققوں اور دانشوروں کی سر پرستی بھی میسر آئی۔یہاں ڈومنیک مغل کا ذکر نہ کرنا نا انصافی ہو گا ،جس نے ہمیں ایک ہفتہ تک اپنے پاس بریڈ فورڈ میں رکھا، ہمارے ایک لیکچرکا اہتمام کیااور بریڈ فورڈ میں انٹر فیتھ پر کام کرنے والے بہت سے گروپوں سے ہماری ملاقاتیں کروائیں۔
پچھلی بار جب ہم برطانیہ گئے تو ہمارا پڑاو مانچسٹر میں تھا،ہم اپنے ایک کزن کے ہاں مقیم تھے، ابھی ہمیں مانچسٹر میں ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ ایک ریسٹورانٹ میں ہمیں نعمان سندھو مل گئے، ان سے ہماری دوستی کی مدت بڑی قلیل تھی، جب 90کی دہائی کے اواخر میں اسلام آباد ویمن گیمز کا انعقاد ہوا تو وہ رشین ٹیم کے مترجم کے فرائض انجام دے رہے تھے، خاصے خوش مزاج اور دوستانہ جذبوں سے سرشار انسان تھے، گیمز کے دوران تو روزانہ ملاقاتیں رہتیں، مگر گیمز کے بعد ایک آدھ بار ہی ان سے ملنا ممکن ہو سکا، اب اچانک اس ریسٹورانٹ میں انہیں دیکھ کر جو مسرت ہوئی وہ ان کے جذبے کا عشر عشیر بھی نہیں تھا، اگلے روز ہی وہ ہماری قیام گاہ پہنچ گئے، اورہمیںمجبور کیا کہ ہم ان کے گھر شفٹ ہو جائیں،کیونکہ وہ مانچسٹر یونیورسٹی اور پاکستانی ریستورانوں کے درمیان واکنگ ڈسٹنس میں رہتے ہیں، اور پھر وہ3دن کے اندر اندر ہمیں اپنے ہاں جبراً لے گئے، ہم نے ان کے ہاں کوئی تین ماہ قیام کیا، اس دوران وہ ہمیں جیب خرچ تک دیتے رہے۔نعمان سندھو ایک احمدی پاکستانی ہے، ڈومینک ایک مسیحی پاکستانی ہے، تیرتھ رام بالی، گوربخش سنگھ ، بلبیر سنگھاور کے سی بھارتی سکھ ہیں،پھر یہ پردیس کی محبتیں کیسی۔۔۔؟ یہ انسانی رشتے کس بنیاد پر قائم ہیں۔۔۔؟ یہ سب ہمارے ساتھ ایک اٹوٹ رشتے میں بندھے ہیں، تمام لوگ اپنے اپنے مذہب کے سچے پیروکار ہیں، کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ رشتے انسانوں کے مابین ہوتے ہیں ،عقیدوں کے مابین نہیں،اور یہ کہ ”راہ پیا جانے یاں واہ پیا جانے“۔

About Daily City Press

Check Also

پلاسٹک موت کی گھنٹی

عظمی زبیر پلاسٹک موت کی گھنٹی ! پلاسٹک کا طوفان، پنجاب کی بقا کا سوال …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *