خواتین کا معاشرتی استحصال ۔
میمونہ عزیز
عورت کیا ہے اور اس کا تقدس کیا ہے یہ جاننے کیلئے لاکھوں کروڑوں سال بیت جانے کے بعد آج بھی ہمیں علم کی ضرورت ہے ۔ اُس علم کی نہیں؟جسکا ٹریلر دکھا کر ہم اپنی آسائش اور راحت کا سامان تو پیدا کر لیںمگر اُس ٹریلر کی آڑ میں عورت کے تقدس کی دھجیاں اُڑادیں ۔ عورت کا مفہوم اور اسکے معاشرتی تقدس کو برقرار رکھنے میں ہم آج تک کیوں کامیاب نہیں ہوسکے اُسکی وجہ صرف اور صرف اپنے دین اور اپنے راہبروں کے صراط مستقیم کے اصولوں کے مطابق بتائے گئے راستوں سے بھٹکنا ہے۔ گو کہ سائنس نے آج ترقی کی جو منازل طے کی ہیںاُس سے تو انحراف نہےں کیا جاسکتا مگر دنیاکی جن قوموں نے سائنس اور اخلاقیات کے تقاضوں کو بھی انتہائی حد تک ملحوظ رکھا ہے۔ عورت ! صرف ایک وجود کا ہی نام نہیں بلکہ ایک ہستی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے انسانی تقاضوں کی تکمیل کے بے شمار اوصاف رکھے اور اِس کی حرمت و تعلیم اور اسکے معاشرتی تقدس کا حکم فرمایا دےا ہےٓ ۔ تہذیب چاہے مغربی ہو یا مشرقی ، مسلم ہو یا غیر مسلم تہذیبوں کے احیاءاور اخلاقیات کے فروغ و بہتری کیلئے خواتین کے کردار کو ناتو مسنح کیا جاسکتا ہے اور ناہی اس سے روگردانی ممکن ہے۔ عورت بنی نوع انسان کیلئے اللہ پاک کا وہ عظیم تحفہ ہے جو اگر ماں ہے تو اللہ کے حکم سے اولاد اور دنیا جہان کیلئے دُعاﺅں کی قبولیت کیلئے خدا اور بندے کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے اس رابطے کے بارے میں خود اللہ پاک فرماتے ہیں کہ “کسی ماں کی دعا کو میں رد نہیں کرتا” عورت اگر بہن ہے توسراپا غیرت ہے جو اپنے وجود سے بھائیوں اور معاشرے کے دیگر افراد کے سینے میں عورت کے تقدس اور پاکیزگی کا جذبہ بیدار رکھتی ہے۔ عورت بیٹی ہے تو پیار اور خلوص کا وہ انمول خزینہ ہے جسکی حقیقت سے انخراف نہیں کیا جاسکتا۔ بیٹی کو والدین کیلئے خود خدا تعالیٰ نے رحمت کا باعث قراردیاہے۔ بہن اور بیٹی کے رشتے وہ عظیم رشتے ہیں جو ماں کے بعد انتہائی قابل تعظیم اور انسانی شفقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ ماں کے بعد ہی دونوں رشتے اس قدر اہم ہیں کہ جو اعلیٰ انسانی تہذیبوں اور اعلیٰ معاشرتی اقدار کے حامل ہیں ۔ عورت کا چوتھا روپ بیوی کا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے افزئش نسل ، دکھ سکھ کی سانجھ ، آرام و سکون کیلئے بنایاہے ۔ اب اِن چاروں رشتوں کا اگر بخوبی تجزیہ کریں انتہائی واضح ہوجاتا ہے کہ کوئی بھی عورت بنیادی طورپر ماں کا درجہ رکھتی ہے ۔ آگے رشتے کی بانٹ نے بھی کسی جگہ یا کسی مقام پر عورت کا تقدس مجروح نہیں ہونے دیا ۔ اگر خالق نے اپنے شاہکار خلق کرتے وقت اُن کا تقدس انتہائی محترم رکھا ہے۔ تو پھر وہ کونسے عناصر ہیں جن کی وجہ سے ہم ایک مسلم اور تہذیب یافتہ معاشرہ ہونے کے باوجود تاحال اپنی خواتین کا معاشرتی تقدس بحال کرنے اورکرانے میں ناکام ہیں ۔ آج ہمارے معاشرے میں جس قدر خواتین کا معاشرتی استحصال ہورہاہے اُسکی مثال کہیں دوسرے معاشروں میں ملنی مشکل ہے۔ کیوں مغربی معاشرہ خواتین کو کیا تحفظ فراہم کرتا ہے اور اُن کا کیا استحصال کیا جارہاہے اِس حقیقت سے نا صرف ہم بلکہ دنیا بخوبی آگاہ ہے ۔ جبکہ ہمارے مشرقی معاشرے میں فی الحال ا س قدرنہیں ہے مگر یہ کہنا غلط ہوگاکہ یہاں خواتین کا استحصال نہیں ہورہا۔یہ درست ہے کہ ہمارے مذہب اسلام نے خواتین کو برابری کی سطح پر حقوق کی فراہمی کا نظام دیاہے اور انہیں بعض معاملات میں بااختیار بھی بنایا ہے۔ مگر انہیں اس با اختیاری کی آڑ میں والدین ، خاندان اور اہل خانہ کی عزت اور غیرت کو پامال کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی گئی۔ دین نے بھی خواتین کی خود مختاری ، آزادی اور اپنے حقوق کے حصول کیلئے کچھ حدیں مقررکی ہیں اب اگر ہر معاملہ میں صرف مردوں کو ہی قصور وار ٹھہرایا جائے تو یہ بھی غیر مناسب سی بات ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ہمارے ہاں ماضی سے ابتک کچھ خود افسردہ اور ساختہ بنائی گئی رسوم اور قوانین نے خواتین کے ناصرف حقوق سلب کررکھے تھے بلکہ احتجاج کی صورت میں انہیں جان سے بھی ماردینے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ اس ضمن میں ہمارے ہاں کا وڈیرہ ازم اور جاگیر داری نظام خواتین کے اس معاشرتی استحصال میں پیش پیش اور نمایاں رہاہے۔ ملک کے چند ایک بڑے شہروںکو چھوڑکر اور بالخصوص ملک کے دیہی علاقوں میں خواتین کا جو سب سے بڑا استحصال کیا گیا وہ ہے اُنکی تعلیم سے محرومی۔ پھر وہاں کے پنچائتی سسٹم جس میں وڈیروں ، جاگیرداروں، اُنکی اولاد اور اُنکے رشتہ دار احباب پر تو کوئی پنچایت یا قانون لاگونہ ہوتاتھا بلکہ تمام مظالم اور قوانین صرف مزارعوں اور محنت کش لوگوں پر مسلط کیے جاتے تھے ۔ اور ان پنچائتوں کے ذریعے ان غریبوں کی بچیوں ، خواتین کا جس بیدردی سے استحصال کیا جاتارہا انتہائی حد تک ناقابل معافی ہیں ۔ اسکے ساتھ ساتھ چھوٹی عمر کی بچیوں کو زبردستی نانے، دادے یا باپ کی عمر کے مردوں سے بیاہ دینا، کسی احتجاج کی صورت میں پیروں میں بیڑیاں ڈال کر قید میں پھینک دینا، وڈیروں ، جاگیرداروں اور اُنکے بیٹوںکا اکثر کسی غریب محنت کش یا مزارعے کی بہو بیٹیوں سے زبردستی زیادتی کرنا اور اپنی جاگیروں کی تقسیم کے خوف سے اپنی بیٹیوں (مُعاذ اللہ ) قرآن سے شادی جیسی رسوم آج بھی ملک کے کئی علاقوں میں رائج ہیںجنکے ذریعے خواتین کا معاشرتی استحصال کیا جاتا رہاہے اورکیا جارہا ہے۔ مگر ہمارے ہاں وڈیروں اور جاگیرداروں کی یہ من پسند رسو م اور خود ساختہ نظام کا خاتمہ نصف صدی گزرجانے کے باوجود بھی ختم نہیں کیا جاسکا آخر اس کی کچھ تو وجوہات ہیں کہ جن کی بناءپر ماو رائے قانون ، عدالت یہ سلسلہ جات آج بھی جاری و ساری ہیں۔ اِسکے پسِ پردہ یہ جاننے کیلئے کہ آخر وہ کون سے عوامل اور کونسے عناصر ہیں جن کی بدولت ہمارے ہاں بننے والی تمام تر حکومتوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ اسکی بڑی وجہ جو دیکھنے اور سمجھنے میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہی وڈیرے اور جاگیر دار ہر حکومت کا حصہ رہے ہیں۔ اور حکومت کا حصہ ہونے کی وجہ سے وہ ایک طرف تو حکمرانوں کو اخلاقی اور معاشرتی سطح پر بلیک میلنگ کے ذریعے دباتے رہے ہیں اور دوسری طرف حکومت کی طرف سے ملنے والے اختیارات کی روشنی میں وہ اپنے اپنے علاقوں اور جاگیروں میں آج بھی اُن داتاﺅں اور ناخداﺅں کے کردار بڑی ڈھٹائی اور ڈنکے کی چوٹ پر جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں ۔ جس میں سب سے بڑا عنصر خواتین کے معاشرتی استحصال کا مگر اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خواتین کے اس ہونے والے معاشرتی استحصال کیلئے معاشرے کے ٹھیکیداروں نے جدید طرز عمل اختیار کر لیا ہے اور جو کھیل وڈیرہ ازم اور جاگیرداری کی آڑ میں ملک کے دیہی علاقوں میں کھیلے جارہے تھے ویسا ہی ماحول اب ملک کے اربن ایریاز میں وڈیروں اور جاگیرداروں کے ریت رواج کو نصب العین بناتے ہوئے سرمایہ کاروں اور سرمایہ داروں نے اختیار کرلیاہے۔ ہمارے اربن ایریاز میں کہیں تو کلچرل پروموشن کے نام پر خواتین کا جنسی استحصال کیا جارہاہے، کہیں فیشن شوز اور دیگر کلچرل پروگراموں کی آڑ میں اور کہیں روشن خیالی کے نام پر خواتین کے جنسی اور معاشرتی استحصال کا یہ سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ یعنی یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جاگیرداروں اور وڈیروں کی دھنگا مستی میں اب سرمایہ دار یا سرمایہ کار طبقہ بھی شامل ہوچکا ہے۔ اب جہاں معاشرتی اعتبار سے خواتین کے معاشرتی اور جنسی استحصال کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے وہاں وقت کے تقاضوں نے بھی انگڑائی لی ہے اور خواتین میں جب سے تعلیم حاصل کرنے کا شوق و جذبہ بڑھاہے وہاں انہیں خود پر ہونے والے اِن مظالم سے ٹکراﺅ کا حوصلہ بھی ملاہے۔ اور خدا کا یہ شکر ہے کہ ملک کے اربن ایریاز کے علاوہ اب دیہی علاقوں میں بھی خواتین میں تعلیم کے حصول کا جذبہ اور اپنے حقوق کے حصول کا شوق بیدار ہوا ہے۔اور گزشتہ کچھ عرصہ سے خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ زندگی کے ہر شعبہ میں کارہائے نمایاں سرانجام دینے میں پیش پیش دکھائی دینے لگی ہیں۔ موجودہ دور یقینا میڈیا کا دور ہے اور اس دور میں میڈیا نے ہر انسان کو جینے کا ڈھنگ سکھا دیا ہے ۔ماضی میں اگر کوئی خاتون خوش قسمتی سے کچھ تعلیم حاصل کر بھی لیتی تو زیادہ سے زیادہ اسے کسی سکول ٹیچر کی ملازمت مل جاتی مگر آج جبکہ زمانہ اپنی ترقی کے عروج کی منازل پر جارہاہے تو ہر طبقہ، ہر معاشرہ کی خواتین ہرمیدان میں اپنی حیثیت کو نمایاں طورپر منوانے میں کامیاب و کامران ہوتی جارہی ہیں۔
جہاں خواتین کو ملنے والی یہ آزادی اُنکے معاشرتی کارناموں اور کامیابیوںکو اجاگر کرنے میں انکی معاون ثابت ہوتی ہے وہاں خواتین کی اس آزادی کے حوالے سے بے شمار اختلافات بھی نمایاں ہوکر سامنے آئے ہیں۔ کیونکہ ہماری خواتین کے اکثریتی طبقہ نے اپنی تعلیم ، قابلیت اور مالی حیثیت کے زور پر ملک کے غریب اور نچلے یا درمیانے طبقے کی خواتین میں ” خواتین کی آزادی ” کے نام پر اپنوںہی کے بارے میں نفرتوں کو ہوا دے کر معاشرے میں نئے نئے مسائل پیدا کردئیے ہیں ۔ ایسی نفرتوں اور قربتوں کے فاصلوں میں خلیج سی بن کررہ گئی ہے۔ یہ وہی ترقی پسند خواتین کا ٹولہ ہے جو آزادی کے نام پر اپنے جائز و ناجائز معاملات کو حل کرنے اور کرانے کیلئے کسی بھی حد سے گزرجانے کی عادی ہوچکی ہیں اور یہی کچھ وہ معاشرے کی دیگر خواتین سے مقصود و مطلوب رکھتی ہیں تاکہ وہ معاشرے کی سادہ لوح اور کم تعلیم یافتہ خواتین اور بالخصوص نوجوان نسواں نسل کی نفسیات پر حاوی رہ کر انہیں بھی اپنے مقاصد کیلئے ہمہ وقت استعمال کر سکیں ۔ ان مقاصد کے حصول کیلئے گاہے گاہے ایسی میٹنگز اور پارٹیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جن کے ذریعے معاشرے کی سادہ لوح خواتین اور درمیانے و نچلے طبقے کی نوجوان لڑکیوں کی برینِ واشنگ کی جاتی ہے۔ روشن خیالی کا خواب ایک اچھا خواب ہے مگر حکمرانوں کا یہ فرض بھی بنتا ہے کہ وہ اپنے معاشرے کو روشن خیال بنانے سے پہلے دنیا کی دیگر تہذیبوں اور معاشروں کا مطالعہ بھر پور انداز سے کریں کہ آیا روشن خیالی صرف خواتین کو بااختیار یا مبینہ ہٹ دھرم بنانے کا نام ہے یا روشن خیالی میں دیگر کون کون سے جزو اور عناصر شامل ہیں۔ مغربی تہذیب کا اگر مطالعہ کیا جائے تو بلاشبہ وہ معاشرہ اور تہذیب اس وقت روشن خیالی کی حدوں کو چھورہی ہے ۔ جب کوئی معاشرہ تہذیب و ثقافت اور میڈیا نسل نو کے اساسی تصور یا فکری ورثے کے فروغ کی بجائے عشق و محبت کے کردار اور بے راہ روی کی جانب رہنمائی کرے تو پھر اس ملک و قوم کو اپنے تحفظ و بقاءکے لئے طویل جدوجہد کرنا پڑتی ہے ۔ آج ہمارے اکثر تعلیمی اداروں میں یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ وہاں ”ہم نصابی“ لیکن درحقیقت غیر تعمیری سر گرمیوں کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ خصوصاً گرلز کالجز اور نجی تعلیمی اداروں میں غیر نصابی پروگراموں اور فن فیئرز کے نام پر اخلاقیات کی حدود پامال کی جاتی ہیں۔ سالانہ تقریبات ، مقابلہ حسن، فیشن شوز ، ملبوسات کی نمائش ، کیٹ واک اور کبھی ڈانس مقابلوں کے عنوان سے اورپنجاب میں ہونے والے فیسٹیول کے انعقاد کے ذریعے ہماری ملی و دینی، ثقافتی اور قومی غیرت کا جنازہ نکالا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں پرائمری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک تعلیمی اداروں میں روشن خیالی کے نام پر جو وبا پھیل رہی ہے وہ ہمارے معاشرے اور تمدن کودیمک کی طرح چاٹ رہی ہے اور نتیجتاً ان تعلیمی اداروں سے محب وطن لوگ اور مستقبل کے دانشور پیدا ہونے کے بجائے رومانوی داستانوں کے ہیروز اور مستقبل کے لالی وڈ اور ہالی وڈ کے ”ٹاپ سٹارز“ ابھر رہے ہیں جن کا کوئی مستقبل نہیں ۔تعلیمی اوقات کے دوران کسی بڑے پارک، یونیورسٹی کے سرسبز و شاداب لان یا کالج کے کوری ڈور میں بیٹھے طلبہ و طالبات کا ہیرا رانجھا ، لیلیٰ مجنوں اور شیریں فرہاد کی رومانوی داستانوں کو دہراتا، ساتھ جینے مرنے کا سبق پڑھنا تو ایک الگ موضوع ہے لیکن سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لوگوں کے سامنے سٹیج پر طلبہ کا رقص تعلیم کے مقاصد کی صریحاً نفی کرتا ہے جو قابل مذمت بھی ہے اور بے راہ روی کی جانب مائل کرنے کا ذریعہ بھی۔ یہ ملک لاکھوں قربانیاں دے کر اس لےے نہیں بنایا گیا تھا کہ اسے یوں روشن خیالی، معتدل مزاجی اور مغرب کی غلیظ عادات کی آماجگاہ بنا دیا جائے۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جب بگاڑ غالب آجائے تو معاشرہ ، قوم، مستقبل، غرض ہر چیز خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت درس گاہوں کو رقص گاہوں میں تبدیل کرنے کے لئے ناچ گانے کی ثقافت کو ملک کے ایک ایک کالج اور ایک ایک سکول پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ آج بدقسمتی سے ہمیں جوتعلیم اورتربیت دی جا رہی ہے وہ آج بھی ہمارے مقصد حیات سے متصادم ہے۔
یورپی معاشروں اور تہذیبوں کی حصہ دار خواتین آج خود اپنی ان روشن خیالیوں سے جان چھڑانے کے در پے ہیں۔ اسکی آخر کیا وجہ ہے ؟ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ مغربی تہذیب اور معاشرہ میں رہنے والی خواتین اور بالخصوص نوجوان نسل اس بے جا روشن خیالی اور ترقی کے نام پر آزادی کے تمام مطالب کو انتہائی قریب سے دیکھ چکی ہیں ۔ جبکہ اپنی خواتین اور نوجوان نسل نے مذاہب کے مطالعہ سے زندگی کی اصل روشن خیالی پر اور آزادی کے نام پر معاشرتی اخلاقی استحصال کو بُری نظر سے دیکھنے پر مجبور ہیں۔ آج جبکہ امریکہ ، کینیڈا ،فرانس، جرمنی ، اٹلی ، برازیل اور برطانیہ جیسے یورپی ممالک کی خواتین اور نوجوان نسل اپنی اپنی گندہ ترین روشن خیالیوں کے چنگل سے آزاد ہوکر مذہب اسلام جیسے پاکیزہ اور بااخلاق مذہب کی تعلیمات حاصل کرنے اور اسکے زریں اصولوں کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے پر مجبورہیں تو پھر ہماری کیا مجبوری ہے کہ ہم اُن کی چھوڑی جانے والی روشن خیالیوں کو اپنے معاشرے پر اثر انداز ہونے دیں ۔ کیا یہ ہمارے حکمرانوںکی کوئی مجبوری ہے یاپھر اِسے ہم اپنے مشرقی معاشرہ اور پاکستان جیسی عظیم اسلامی فلاحی مملکت کی خواتین کے خلاف سازش خیال کریںکہ جو خواتین کو روشن خیالی کی آڑ میں بے جا اور منہ زور آزادی اور روشن خیالی کے نام پر دنیامیں رسوا کرنے کیلئے تیار کی گئی ہے۔
Tags Blog
Check Also
وہ آیا، اس نے وہ کیا اس نے تاریخ رقم کر دی
اشعر سعید خان برطانیہ سے وہ آیا، اس نے وہ کیا اس نے تاریخ رقم …