Breaking News
Home / Columns / مجھ پر خدا کی مار ہو

مجھ پر خدا کی مار ہو

shujah u din

محمد شجاع الدین

مجھ پر خدا کی مار ہو

اسکول کی ابتدائی جماعتوں کا احوال کس کو یاد نہیں رہتا ۔ یہ تو تتلیوں اور جگنووں کی وہ کہانیاں ہیں جو کسی گمشدہ کہکشاں کی طرح قبر کے اندھیروں میں بھی آ دھمکتی ہیں اور منکر نکیر کے خوف میں ڈوبی اماوس کو جگمگا دیتی ہیں ۔ کلاس روم کے پچھلے بنچوں پر بیٹھ کر ککڑوں کوں کی آوازیں نکالنا ۔۔۔ اوئے اوئے کرنا ۔۔۔ غیر حاضر ہم جماعت کی سپلی لگواتے ہوئے آواز بدل کر یس سر کہنا ۔۔۔۔ پیریڈ شروع ہونے سے پہلے منہہ ٹیڑھا کر کے ماسٹر صاحب کی نقلیں اتارنا ۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تختہ سیاہ کو ڈسٹر کیساتھ اس تیزی سے صاف کرنا کہ اڑتے ہوئے چاک کی سفیدی ماسٹر صاحب کے بالوں میں چاندی ضرور بھر دیتی ۔۔۔ ہم کیونکہ آج کل کے ممی ڈیڈی اسٹوڈنٹس نہیں تھے ۔۔۔ طالبعلم تھے ۔۔۔ اور طالبعلم بھی وہ کہ جن کے والدین نے جانئیے ماسٹر صاحب کے ہاتھ ہمیں گروی رکھ دیا تھا ۔۔۔ ان وقتوں میں والدین بڑی عاجزی کیساتھ کہا کرتے ۔۔ ماسٹر صاحب ماس آپ کا ہڈیاں ہماری ۔۔ بس بچے کو اچھا انسان بنا دیجئے ۔۔۔ پڑھ لکھ کر بابو بن جائے ۔۔ اپنے جوگا ہو جائے ۔۔ ہمیں کون سی اس کی کمائی کھانی ہے ۔۔۔۔ بھلے وقت تھے۔۔ نوکریوں کا کال نہیں تھا ۔۔۔ بی اے ۔۔ ایم اے کرنیوالا جنٹلمین کہلاتا ۔۔ آسمانوں پر اڑتا پھرتا ۔۔۔ بریک ٹائم یا پھر چھٹی کا وقت صحیح معنوں میں بدمعاشی کرواتا ۔۔۔ چیخیں مارتے ۔۔ جانوروں کی آوازیں نکالتے ۔۔۔ دھکم پیل کرتے کوریڈورز میں قلانچیں بھرتے باہر کی طرف بھاگ اٹھتے ۔۔۔ ایسے میں ڈیوٹی پر موجود ماسٹر صاحب ایک آدھ بچے کو پکڑ لیتے ۔۔۔ دو تھپڑ ۔۔ ایک داہنے دوسرا باہنے گال پر پڑتا ۔۔۔ دو چار بار کان مروڑے جاتے ۔۔ ہاتھوں پر اسٹک کی ضرب بھی ضرور لگتی ۔۔۔ انجام ۔۔ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں معافی نامہ لکھا جاتا اور بس ۔۔۔اپنے اپنے گھر ۔۔۔ سچ ہے کہ بچوں سے شیطان بھی پناہ مانگتا ہے ۔۔۔ سو اگلے دن ہم ہوتے ۔۔ ماسٹر صاحب ہوتے اور دگنی شرارتیں ۔۔۔۔ جو آج پچاس برس کی عمر کے بعد بدتمیزیاں لگتی ہیں ۔۔۔ ڈویژنل پبلک اسکول میں ہمارے تاریخ اور جغرافیئے کے سر ڈبل اے قریشی مرحوم کے ہاتھ میں بالشت بھر چھڑی ہوتی تھی جو وہ گھماتے پھرتے ۔۔۔ لیکن گھومتے گھومتے ایک آدھ بچے کو پڑ ہی جاتی ۔۔۔۔ اصل مسئلہ دسمبر جنوری کے پہلے پیریڈ میں آتا ۔۔۔ بشیر سندھو صاحب مرحوم کلاس ٹیچر بھی تھے اور انگریزی کا پہلا پیریڈ بھی وہی لیتے ۔۔۔۔ ڈکٹیشن روزانہ کا معمول تھی ۔۔ کاپی کے اتنے صفحے ہم نے کشتی یا جہاز بنانے میں خرچ نہیں کئے جتنے ڈکٹیشن دینے میں صاف ہوئے ۔۔۔ غلطیاں مارک ہوتیں تو پہلے کان مروڑے جاتے پھر فی غلطی چھڑی کی ضرب لگتی ۔۔۔ خیر ہاتھ کا معاملہ ہاتھ تک ہی رہتا ۔۔۔ اسی بہانے ٹھنڈ میں شل ہوئے ہاتھ سینکے جاتے ۔۔۔ ہفتے میں ایک دن منگلوار کو پرنسپل مشتاق احمد اختر صاحب ۔۔اللہ انہیں عمر خضر عطا کرے ۔۔ ڈکٹیشن کی کلاس لیتے ۔۔۔ انگریزی غلطیوں کی مارکنگ کا طریقہ مروجہ تھا ۔۔ بس سزا کی صورت بدل جاتی ۔۔ بچوں کو رکوع میں لے جا کر چھڑی کا وار چوتڑوں پر رکھا جاتا ۔۔۔۔اور غلطیوں کی گنتی پوری کی جاتی ۔۔۔ سر شکور اللہ انہیں سلامت رکھے سے ہماری جان جاتی ۔۔ حساب پڑھاتے مگر احتساب زیادہ کرتے تھے ۔۔۔ دوسرے اساتذہ کیطرح کیونکہ پینٹ شرٹ پہنتے نہ ٹائی لگاتے ۔۔ باشرع تھے ۔۔ سفید شلوار قمیض پر واسکٹ یا شیروانی پہنتے ۔۔۔ اس لئے سزا دینے کا انداز بھی مختلف تھا ۔۔ تھپڑ مارنا خود کی توہین سمجھتے ۔۔ چھڑی استعمال نہیں کرتے تھے ۔۔۔ ہاتھ پکڑتے ۔۔ انگلیاں مروڑ کر نرم کرتے یا پھر انگلیوں میں پنسل گھما کر رواں کرتے اور پھر چاروں انگلیوں کو مضبوطی سے پکڑ کر عین ہتھیلی پر ڈسٹر جماتے ۔۔۔۔ فزکس کے اعوان صاحب مرحوم کا انداز انوکھا تھا ۔۔۔ نالائقوں کو کلاس روم کی آخری دیوار کیساتھ کھڑا کرتے ۔۔۔ ایک ایک کے پاس خود پہنچتے ۔۔۔ دبی آواز میں پوچھتے ۔۔۔ والد صاحب کیا کرتے ہیں ۔۔۔۔ اور پھر حسب نسب کیمطابق سزا کا تعین کرتے ۔۔۔ ان دنوں کی بات ہو اور ڈرائنگ ٹیچر بخاری صاحب یاد نہ آئیں ۔۔۔ آپ کلین شیو ۔۔ اسمارٹ آدمی تھے ۔۔۔ خوب بن ٹھن کر رہتے ۔۔ بیل باٹم پینٹ پہنتے ۔۔لمبے بال گردن تک بڑھا رکھے تھے لیکن ہمارے بالوں کے دشمن تھے ۔۔۔ ہمارے کانوں پر بال دیکھے نہیں اور اسمبلی کی قطار سے باہر لا کھڑا کیا ۔۔۔ بہت رحم کھاتے تو ہاسٹل کا حجام بلوا کر سولجر کٹ کروا دیا ۔۔۔ آپ نے ننھی منی زیرو کی مشین بھی رکھی ہوتی تھی جو عین قلم کے اوپر پھرتی تو مکمل استرا پھروانے کے بعد بھی نشان نہیں جاتا تھا ۔۔۔ بخاری صاحب نے اسکول کے سارے زمانے میں ہمیں ہیرو سے زیرو بنائے رکھا ۔۔۔۔سب سے آسان پیریڈ جعفری صاحب مرحوم کا ہوتا ۔۔۔ اسلامیات پڑھاتے تھے مگر استنجا ۔۔ وضو اور نماز کا طریقہ سمجھانے میں وقت گزر جاتا ۔۔ ابتدائی تعلیم کی بات چل نکلی ہے تو پھر قاری صاحب کی یاد بھی عمرو کی زنبیل سے نکل ہی آئی ۔۔۔ والد صاحب مرحوم نے اسپیشل گھر بلوایا ۔۔ ماں جی نے خاطر تواضع کی کہ بیٹے کو اللہ رسول کے نام سے آشنائی کروانے کا سبب میسر آ گیا ۔۔ لیکن یہ کیا ۔۔۔ نورانی قائدے کا پہلا صفحہ ۔۔ پہلی سطر کا پہلا حرف ۔۔۔ اور معصوم گال پر زناٹے کا پہلا تھپڑ ۔۔۔ بعد کی زندگی اگرچہ گرم سرد زمانے کے تھپیڑوں ہی میں گزر رہی ہے ۔۔۔ لیکن وہ تھپڑ ۔۔۔۔ کہ بیک وقت تین آوازیں گونجیں ۔۔۔ پہلی چٹاخ ۔۔۔ دوسری آہ ۔۔۔اور تیسری ۔۔ ہائے میں مر گئی ۔۔۔ دروازے کی اوٹ لئے بیٹھیں ماں بن کر پالنے والی پھوپھو ایک دم سے باہر آئیں ۔۔ مجھے سینے سے لگایا اور شعلہ اگلتی آنکھوں سے قاری صاحب کو کچھ اس انداز میں دیکھا کہ وہ پھر کبھی نظر نہیں آئے ۔۔ مسلمان گھرانوں میں نورانی قائدے کا سبق ہر صورت قرآن پاک کی منزل تک پہنچتا ہے ۔۔۔۔ سو پہنچا اور اس بار قرعہ فال ماموں جان محمد ارشد فلکی کے نام آیا ۔۔۔ پہلے پہل خوب نخرے اٹھائے گئے تاہم بات ایک آدھ تھپڑ تک پہنچ ہی گئی ۔۔۔ ہم نے رسے تڑوانے کی کوشش کی مگر اس بار اپنا مورچہ کمزور تھا ۔۔۔ بچپن کی یادوں کو ہمیشہ گردش ایام کی ہواوں اور چرخ کہن کی نظر سے بچایا جاتا ہے ۔۔۔ ماضی کھو جائے تو حال ادھورا ۔۔ مستقبل بے یقینی کا شکار ہو جاتا ہے ۔۔لیکن ۔۔۔ آج یہ خوبصورت یادیں میرے دل و دماغ پر تازیانے برسا رہی ہیں ۔۔۔ صحافی ہوں ۔۔۔ کرب و بلا کی کئی داستانیں روزانہ سنتا بھی ہوں ۔۔ دیکھتا بھی ہوں ۔۔ نیلی چھتری والے کی مصلحت کے آگے کچھ دیر کیلئے دم بخود رہتا ہوں پھر ایک کے بعد ایک رونما ہونیوالے حادثات سے نظر ہٹاتا آگے گزر جاتا ہوں ۔۔۔۔ یہ آج ایسا کیا ہو گیا ۔۔۔ زباں گنگ ہوگئی ۔۔۔ قلم کی نوک ٹوٹ گئی ۔۔۔ کلیجہ دھک سے رہ گیا ۔۔۔ ذہن ماوف ہو گیا ۔۔ آسمان گرا نہ زمین پھٹی ۔۔ باد صبا ‘ باد سموم میں کیوں نہ بدل گئی ۔۔۔ چاند کیوں نہ گہنایا ۔۔ سورج شق کیوں نہ ہوا ۔۔۔ خوش رنگ پھولوں کی ڈالیوں نے زرد آنچل کیوں نہ اوڑھ لئے ۔۔۔۔۔ ایک استاد کے ہاتھ میں ہتھکڑی ہائے میرے کرتوت ۔۔۔ سیاہ کرتوت الف اللہ ۔ ب بسم اللہ کا سبق عرش بریں سے زمین کے پاتال تک لانے والا ۔ استاد ۔۔۔ اس سبق کی روشنی کو ضیا بخش کر کائنات کا ذرہ ذرہ چمکانے والا ۔استاد ۔۔۔ اسی سبق کے ذریعے اذہان کو مسخر اور قلوب کو مفتوح بنانے کا ہنر سکھانے والا ۔ استاد ۔۔۔ حیوان کی جبلت سے نکال کر انسان کو انسان بنانے اور پھر انسان دوست بننے کا سبق پڑھانے والا ۔ استاد ۔۔۔۔۔ ہاں مجھے معلوم ہے ۔۔ میرے ننھے ہاتھ بدعا کیلئے ضرور اٹھتے تھے ۔۔۔ ۔۔۔ اللہ میاں سر بیمار پڑ جائیں ۔۔۔ ان کی موٹر سائیکل پنکچر ہو جائے ۔۔۔ غصہ بڑھتا تو یہ بھی کہہ دیتا ۔۔۔ اللہ کرے ۔۔ سر کا ایکسیڈنٹ ہو جائے۔۔۔ لیکن یہ بد دعائیں چپکے چپکے دل میں کی جاتی تھیں ۔۔۔۔ الفاظ زبان پر کبھی نہیں آئے تھے ۔۔۔ پتہ تھا آمین کہنے والا کوئی نہیں ۔۔۔ والد صاحب یا ماں جی نے سن لیا تو خیر نہیں ہو گی ۔۔۔ سزا دوگنا بڑھ جائے گی ۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ اساتذہ کی سزا آج جزا بن گئی جو مجھے فنا کے اندھیروں سے نکال کر بقا کے اجالوں میں لے آئی کیونکہ مجھے بتایا یہی گیا تھا ۔۔۔ سمجھایا یہی گیا تھا ۔۔۔ استاد کی قدرو منزلت ماں باپ سے بڑھ کر ہے ۔۔۔ بے ادب بے مراد رہتا ہے ۔۔۔ بے استادا ہمیشہ ٹھوکریں کھاتا ہے ۔۔۔۔ یہی میری تربیت تھی ۔۔۔ لیکن میں نے اپنی اولاد کو کیا بتایا ۔۔۔ کیا سمجھایا ۔۔۔ کہ وہ ہاتھ جو سر پر پھرے تو دنیا سنور جائے ۔۔۔ اسی دست شفقت میں ہتھکڑیاں پہنا دو ۔۔۔ الاماں ۔۔ الحفیظ ۔۔۔ اے رب العالمین تیرے دروازے تو مجھ ناہنجار پر بند ہو ہی گئے ۔۔۔۔ محمد عربی کو کیا منہہ دکھاوں گا ۔۔۔ کس برتے پر شفاعت مانگوں گا ۔۔ ابوبکر کی دوستی ۔ عمر کی بہادری ۔ عثمان کی دریا دلی ۔ علی کی سپہ گری کے پڑھائے اسباق کو کیا رنگ دوں گا ۔۔ کیا حسن اور حسین کا سکھایا شجاعت اور شہادت کا سبق بھی بھول جاوں ۔۔۔ مایوسی کفر ہے ۔۔۔ بدعا غلط ہے ۔۔ لیکن مجھے میرے کرموں کا پھل ملنا چاہیئے ۔۔۔ میں تیرے علم کو صحیح معنوں میں آگے منتقل نہیں کرسکا ۔۔۔ میری اولاد بے راہرو ہو گئی ۔۔۔ اس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں میں خود ہوں ۔۔۔ میں نے انہیں کچھ بتایا ہی نہیں ‘ کچھ سکھایا ہی نہیں ۔۔۔ آج میرے ہاتھ خود اپنے لئے بددعا کیلیے اٹھے ہیں۔۔۔ ہائے میرے کرتوت ۔۔۔۔ سیاہ کرتوت مجھ پر خدا کی مار ہو مجھ پر خدا کی مار ہو

محمد شجاع الدین 14 اکتوبر 2018

About Daily City Press

Check Also

پلاسٹک موت کی گھنٹی

عظمی زبیر پلاسٹک موت کی گھنٹی ! پلاسٹک کا طوفان، پنجاب کی بقا کا سوال …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *