زندگی کابلبلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔کاملہ حیات
لکھاری فری لانس کالم نگار اور اخبارکی سابقہ ایڈیٹرہے
Email: kamilahyat@hotmail.com
ہم میں سے کم تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو محفوظ بلبلوں میں رہتے ہیں جوہمیں بیرونی دنیا سے الگ رکھتے ہیں۔ وہ لوگ جوبلبلوں کے اندررہتے ہیں ان کی رسائی زندگی کی آسائشوں جن میں بچوں کی تعلیم،صحت، ہوٹلوں پرعیاشی کی سہولیات،مال اوراس طرح کی اوربہت سی سہولیات تک ہے۔
لیکن لوگوں کی اس بہت چھوٹی سی آبادی کے باہر لاکھوں افراد ہیں جوبلبلے سے باہررہنے والی پاکستانی قوم کی زندگی کااہتمام کرتے ہیں۔ پاکستان کی ایک تہائی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے رہتی ہے اوروہ اپنے آپ اوراپنے بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے بھی قابل نہیں۔ دیگر صحت کے نظام اور پبلک سیکٹرکے تعلیمی نظام کے ہاتھوں تنگ ہیں جس پر ہماری بنیادی پیدوارسے بھی ایک فیصدزیادہ اخراجات آتے ہیں جنہوں نے قوم کے بچوں کو بری طرح ناکام کردیاہے۔
پاکستان میں نظام تعلیم کابجٹ صرف دوفیصدہےجوبین الاقوامی بجٹ کے سفارش کردہ چارفیصدبجٹ سے سوفیصد کم ہے۔ تاہم ایسے میں اس بات میں حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ سرکاری سکولوں میں ٹیچرزنہیں،جسمانی سزئیں ہیں،کھلے میدانوں اورمٹی گارے پرمشتمل کلاس رومزہیں اورتمام صوبوں میں تدریس کے بارے میں محدود شعور ہے۔
سکول جانے والے بچوں میں سے پچاس فیصدپانچویں کلاس تک جانے سے پہلے ہی سکول چھوڑدیتے ہیں۔ جس کی وجہ یاتویہ ہوتی ہے کہ پانچویں سے آگے کلاسز والے سکولز یاتوان کے گھروں کے بہت دورہوتے ہیں یاان کی صورتحال بہت خراب ہوتی ہے۔ مدرسوں کی تعلیم کےفروغ پاتے شعبے نے اس نظام کی جگہ لے لی ہےنے معاشرے کو نئے خطرات سے دوچارکردیاہے۔ اس دوران نجی اسکولوں کے گروپوں کارجحان منہ مانگی فیسیں لے رہاہے جن میں سے کچھ بچوں کوسستی تعلیم دے رہے ہیں تاکہ وہ مستقبل کے لئے کارآمد بن سکیں۔
اس سب کے نتیجے میں جزوی طورپربے روزگاری اورروز گارکاانتظارکرنے والوں کی شرح41.103فیصدہےجس کی وجہ سے جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے،لوگوں کی ایک بڑی تعداد باقاعدہ گھروں کے بغیررہ رہی ہے جبکہ ملک کے50فیصدبچوں کی غیرکامل نموہورہی ہے۔ اس پرہی بس نہیں بہت سے بچوں کی پوری ذہنی نشوونمانہیں ہوپاتی۔ شہروں میں وہ جوبلبلے کے اندررہتے ہیں ان پرباہرکے ہجوم کا ایک خوف طاری رہتاہے۔ ہم پرڈکیتی راہزنی کی کوششوں،معمولی تنخواہ اوربغیرکسی تحفظ کےرکھے گئے ملازموں کی جانب سے چوری اوربڑھے ہوئے دہشت گردوں سے خطرہ رہتاہے۔
ایک دن آئے گاجب اس بلبلے کے باہرکے لوگ اسے توڑنے کی کوشش کریں گے۔ کیونکہ ان کے پاس اس کے سواچارہ نہیں۔ انسان کی زندہ رہنے،کھانے اور بقاکی خواہش مضبوط ہے۔ ہم نے اس کوعملی طورپرانسانی زندگی کی تاریخ کے ادوارمیں دیکھاہے۔ زندگی کی بنیادی سہولیات تک سے محروم رہنے والوں کی تعدادبڑھ رہی ہے۔
پھروہ اس کاکچھ حصہ حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ یقینی طورپروقت کے ساتھ ساتھ ایساہوگاجب تک کہ کچھ معجزات پرہم اپنے گورننس سسٹم کوبہت زیادہ بہترکرنے کے قابل ہوجاتے ہیں اور ضروریات زندگی،تعلیم اور دیگربینادی چیزوں پربہت بڑی سبسڈیزکی پیشکش کرتے ہیں ۔
شیشے کے اس بلبلے کو توڑنے کی جزوی کوششوں کے آثارہیں۔ مسلسل دوسرے سال یونیورسٹی آف پشاورکے طلبا نے بڑھتی ہوئی ٹیوشن فیسوں،ہوسٹل واجبات اور امتحانی فیسوں کے خلاف احتجاج کیا۔کچھ شعبوں کے اخراجات میں 400فیصد تک اضافہ کردیاگیاہے۔ یقینی طورپرتنخواہیں مہنگائی کی اس شرح سے نہیں بڑھیں اورطالب علموں کے پاس حق ہے کہ وہ اپنا آواز اوپرتک پہنچاسکیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان کوسننے اور کم ازکم اپنی آوازوں کے ذریعے اس بلبلے میں آنے دینے کی بجائے ان کے ساتھ غنڈہ گردی کی گئی اور انہیں پولیس سے مروایاگیا۔ اس وقت تک کیمپسزمیں کسی حدتک امن ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مایوس لوگوں کاغیض وغضب بڑھ جائے جن کے پاس بہت کم آپشن رہ گئے ہیں۔
اس ساری صورتحال کاجواب یہ ہے کہ پہلے عوام کے بارے میں سوچاجائے خاص طورپر ان لوگوں کے بارے میں جن کے گردکوئی حفاظتی دیوارنہیں نہ کوئی نازک قلعہ ہے جسے گارے کی دیواربھی قراردیاجاسکے۔ ایک ایسسی صورتحال میں جہاں شیرخواربچوں کی حالت تمام جنوبی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں بدترین ہے اورصحرائے افریقہ جیسے ممالک جیسی صورتحال ہے۔
ایسے ہی وقت میں خوراک کی تقسیم پرکام کرنے والی تنظیموں کی رپورٹ کے مطابق ملک میں میرج ہالز اور ہوٹلوں پر پکے ہوئے کھانے کا40فیصد ضائع کردیاجاتاہے۔ اس میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی مرضی ہوتویہ صورتحال بہت کم وقت میں تبدیل کرسکی ہے۔ سوپ کچنز،فوڈ بینکس اوردیگرایسے ذرائع جہاں سے بھوک مٹائی جاسکتی ہے کانظام پہلے درست کرناچاہئے۔ اس اقدام کی گورنرہاؤسزکھولنے،ٹریفک کے سخت قوانین نافذکرنے اورتجاوزات ختم کرنے کے مقابلے میں زیادہ پذیرائی ہوگی۔ سب سے بڑاعنصریہ ہے کہ ضرورت اس امرکی ہے کہ رحم کی تصویرمیں پہلے تبدیلی کی جائے بے شک یہ ایک مشکل کام ہی لگتاہے۔
کیاوجہ ہے کہ لوگوں نے اپنی روزمرہ زندگی میں دم توڑتی امیدکی صورتحال میں بغاوت کیوں نہیں کی۔ ہماری ناقص گورننس کی تاریخ کے بارے میں عمومی رائے یہ ہے کہ یہ تبدیل نہیں ہوسکتی۔ نیاپاکستان کے نعروں نے کسی حدتک امیدوں کوروشن کیاہے۔ بلاشبہ کچھ لوگوں کو یقین ہے کہ فوری طورپرصورتحال تبدیل ہوگی۔ تاہم ایسانہیں ہوا،نہ ہوسکتاہے۔ لیکن بہت بڑی تباہی میں پھنسے لوگوں کونکالنے کی تبدیلی کی جانب سفراورکچھ ریلیف کے لئے فوری طورپرکام توشروع کیا جاسکتاہے۔
اگرہم اس سمت میں بڑھنا شروع کردیں تو لوگوں نے اپنے تحفظ کے لئے جوبلبلہ بنارکھا ہے ٹوٹ جائے گا۔ لوگوں میں بڑھتے ہوئے غصے اور بے انصافی اور غلطیوں سے متعلق سوچ کے بہت سے آثارہیں۔ ہم ان کو ملک کے کچھ علاقوں اور تمام شہروں اوربلوچستان جیسے صوبوں میں دیکھ بھی سکتے ہیں جہاں بہت سے لوگوں کاخیال ہے کہ ان کے ساتھ غلط کیاگیا یاان کے ساتھ دھوکہ کیاگیا۔
اس کی ایک بری مثال کوہاٹ میں حال ہی میں گیس کی بڑھتی قیمتوں کے سی این جی اسٹیشن مالکان کااحتجاج ہے جس کی وجہ سے یقینی طورپر کاروبارکونقصان ہوا۔ کراچی میں2012میں بلدیہ فیکٹری میں لگنے والے آگ میں جلنے والے نوجوانوں کی بہادرماؤں نے احتجاج کیا۔ کوئی انصاف نہیں کیاگیا۔ مشال خان جسے گزشتہ سال ان کے اپنوں نے ماردیا کی فیملی جن کے ساتھ زیادگی کی گئی انہوں نے جہاں تک ہوسکااپنی صدائے احتجاج بلند کی۔
لاہورمیں احتجاجی گروپ ان طالب علموں، نوجوان مظاہرین کواکٹھا کرنے کی کوشش کررہے ہیں جوتبدیلی لانے میں مخلص تھے۔ جبران نثار کا2018کے عام انتخابات میں حصہ لینے کافیصلہ اس بات کی علامت ہے کہ لوگ مختلف طریقوں سے سےتبدیلی لاناچاہتے ہیں۔ کسی موقع پریہ سب لوگ اکٹھے ہوجائیں گے۔
اس تشددکاراستہ صرف گورننس میں بہتری لاکرہی روکاجاسکتاہے۔ ملک میں پہلے ہی بہت تشددہے یہاں تک کہ لوگوں نے اپنے ذاتی جھگڑے نمٹانے کے لئے بندوقیں اٹھارکھی ہیں۔ ہرسال تاجر،طلبہ،اساتذہ،ڈاکٹر اوردیگرگروپ احتجاج کے وسیع ہوتے دائرے میں شامل ہورہے ہیں۔ ملک میں غصے کی اٹھنے والی لہرکومثبت تبدیلی میں تبدیل کرناہوگا۔ صرف حکومت ہے کہ جواصلی فرق ثابت ہوسکتی ہے اورلوگوں کاتحفظ یقینی بناسکتی ہے ورنہ کئی دہائیوں سے قوم کے اندرلاواپک رہاہے جواسے بدنظمی کی طرف لے جارہاہے۔
بشکریہ:دی نیوز
ترجمہ:محمدفاروق سپرا