Breaking News
Home / Columns / ” استاد کو اس کا مقام او ر احترام کب ملے گا۔۔۔؟ “

” استاد کو اس کا مقام او ر احترام کب ملے گا۔۔۔؟ “

haroon adeem logo

صورتحال
ہارون عدیم
” استاد کو اس کا مقام او ر احترام کب ملے گا۔۔۔؟ “
5اکتوبر کو عالمی طور پر ٹیچرز ڈے منایا جاتا ہے، جس دن سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر استاد کی اہمیت اجاگر کرنے قوموں کی تعمیر اور صحت مند معاشرے کے قیام میں ان کے کردار کی اہمیت کو اجاگر کر کے ان سے تجدید عہد لیا جاتا ہے کہ وہ اپنے کردار سے انحراف نہیں کرینگے، مگر اس دن حکومت اور نجی تعلیمی ادارے استاد کی عظمت کو تو سلام پیش کرتے ہیں مگر اس کی زبوں حالی کے خاتمے کی جانب کوئی قدم نہیں اٹھاتے، نہ ہی ان کو تدریس اور اپنے طلباءکی کردار سازی کے لئے سازگار ماحول مہیا کرتے ہیں،استاد کی بے توقیری اب ہمارا قومی نشان بن گیا ہے، گزشتہ روز نیب نے پنجاب یونیورسٹی کے سابقہ وائس چانسلر اور 5رجسٹرارز کو بڑے پیمانے پر یونیورسٹی میں خلاف ضابطہ بھرتیاں کرنے کے الزام میںہتھکڑیاں لگا کر احتساب عدالت میں پیش کیا، جس پر عدالت میں وکلاءاکٹھے ہوگئے اور انہوں نے اپنے اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگانے پر شدید احتجاج کیا، الیکٹرانک میڈیا نے بھی اس بات کا نوٹس لیااور صدائے احتجاج بلند کی، رات گئے نیب کے چیئر مین نے اس واقعہ کا نوٹس لے لیا ہے اور اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگاانے والے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے احکامات جاری کر دیئے ہیں۔ ایسے معاشرے میں ”ٹیچرز ڈے“ منانے کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے، اور یہ کارخیر کرنے والوں کو سلام پیش کرنے کو جی کرتا ہے،، ایسے لوگوں میں سینٹ انتھونی سکول کے پرنسپل سر فہرست ہیں، اور سکول ہذا کے اساتذہ بھی جو ہر سال 5اکتوبر کو باقاعدگی سے باہمی تعاون سے ٹیچرز ڈے مناتے ہیں اور قوم کی تعمیر کا تجدید عہد کرتے ہیں۔
شاہد امبروز مغل ایک بے چین روح ہے، جو کہ ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی دھن کا شکار رہتی ہے، جب وہ دارلحکمت کی سربراہی کر رہا تھا تو اس نے اسے ایک مثالی ادارہ بنا دیا،اس کے درو دیوار، اس کے میدان اور پارک نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں اس کی کارکردگی کا اعتراف کرتی تھیں، اب جب کہ وہ سینٹ انتھونی سکول مال روڈ میں ہے تو بھی اس کی یہ کیفیت اسے نچّلا بیٹھنے نہیں دیتی، اس سکول کو اس کا سب سے بڑا تحفہ تو کھیل کے میدان میں گھاس لگوانا ہے جہاں گرد بگولوں کی صورت میں ناچتی تھی اور اس کے بارے میں ہمیشہ یہ کہا جاتا تھا کہ یہاں گھاس لگ ہی نہیں سکتی ،اس نے اسے ہرا بھرا میدان بنا دیا ہے، پھر اس نے یہاں آنے کے بعد عید ملن اورایسٹر مشاعروں کا اہتمام کر کے ایک نئی روایت کی بنیاد بھی ڈالی۔ادارے کی ساکھ میں اضافہ کیا، نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں ایک نئی روح ڈال دی ، ٹیچرز ڈے کے حوالے سے گفتگو کرنے کے لئے ہمیں خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ہم نے جو گزارشات پیش کیں وہ کچھ یوں تھیں۔
اقوام کی تعمیر اور معاشروں میں درگزر، رواداری ،برداشت اور تمام نرم اور گداز جذبے پیدا کرنے میں استاد ہی ایک کلیدی رول ادا کرتا ہے، نپولین نے کہا تھا کہ ”آپ مجھے بہترین مائیں دیں میں آپ کو بہترین قوم دونگا“، ہمارا ماننا یہ ہے کہ آپ بہترین استاد پیدا کریں اور ایک بہترین قوم لے لیں، پاکستان میں 80کی دہائی تک تعلیمی اداروں کا نصب العین تعلیم و تربیت ہوتا تھا، یہ تربیت آداب، اخلاقیات اور وطن سے محبت کے ساتھ ساتھ انسانوں کے درمیان ہر قسم کی تفریق ختم کرنے کی ہوتی تھی، ادب،کھیل، فن تقریر، ڈرامہ،سنگیت ، مصوری سب استاد سکھاتے تھے، طالبعلم کی دلچسپی دیکھتے ہوئے اسے اس میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرتے تھے۔مگر پھر یہ تربیت کا عمل ختم ہو گیا، پہلے جو تدریس کا شعبہ اپناتا تھا اس میں ایک جنون ہوتا تھا کہ اس نے نوع انسانی کے لئے کچھ کرنا ہے، اس نے بچوں کو ایک انسان بننے اور انسانیت کو پروان چڑھانے کے لئے اپنا حصہ ڈالنا ہے، مگر پھر اس شعبے میں ایسے لوگوں کی اکثریت آ گئی جو کہ مجبوراً اس شعبے میں آئے،انہیں اپنی من پسند جاب مل نہیں رہی تھی،وہ اوور ایج ہو رہے تھے، ٹیوشن کا لالچ بھی تھا لہٰذا ایسے لوگ جو گیٹ تھرو گائیڈ پڑھ کر آئے اور وہی پڑھانے لگے، پھر تعلیم کو بھی نجی شعبے کو دے دیا گیا، کھیل کے میدان اور ہال ناپید ہو گئے ، تعلیمی اداروں نے کردار سازی اور علم بانٹنے کی بجائے پیسہ کمانے کو اپنا نصب العین بنا لیا،نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ گھر میں ماں باپ کے پاس بچوں کے لئے وقت نہیں جبکہ سکول میں ٹیچر کو صرف اور صرف اپنا پیریڈ لینے کے علاوہ کسی اور بات کی فکر نہیں۔جس کا نتیجہ آپ سب کے سامنے ہے۔
ہم نے ایک تمثیل بیان کر کے استاد کے اصل کردار کو ابھارنے کی کوشش بھی کی ، کہا جاتا ہے کہ ایک شہر کے شہری یکجا ہو کر امیر شہر کے پاس اپنی فریادیں لے کر گئے، انہوں نے دہائی دی کہ حضور! لٹ گئے گئے،تباہ ہوگئے، برباد ہو گئے، قاضی فتوے بیچ رہا ہے، انصاف کا خون کر رہا ہے، طبیب عطائی ہے، تاجر ملاوٹ کے ساتھ ساتھ منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کر رہا ہے، محافظ ہی لوٹ مار اور چوری چکاری میں مصروف عمل ہیں،کوئی ایسا شعبہ نہیں بچا جس میں گراوٹ اور بگاڑ پیدا نہ ہو گیا ہو، امیر شہر پریشان ہوتا گیا، ٹھنڈے پسینوں کو صاف کرتا گیا، جب شہریوں نے ذرا سا توقف کیا تو اس نے پوچھا کہ یہ بتائیں کہ فلاں محلے کی فلاں گلی کی نکڑ پر ایک برگد کے درخت کے نیچے جو استاد تعلیم اور علم کا زیور بانٹ رہا تھا ، بچوں کی تربیت کر رہا تھا اس کا کیا ہوا۔۔۔؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ جناب وہ اسی لگن، اسی شدت اور عشق کے ساتھ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ امیر شہر نے یہ سن کر سکھ کا سانس لیا اور شہریوں سے کہا کہ جاو¿ سب سکون کے ساتھ جا کر سو جاو¿، جب تک وہ استاد موجود ہے کچھ بھی نہیں بگڑا، بہتری کی امید بھی زندہ ہے اور اس کی جانب سفر بھی جاری ہے۔
ہم نے عرض کی کہ ہمیں ایسے استاد پیدا کرنے ہیں، اور ویسے استاد بننا بھی ہے، ہمیں استادوں کو وہ احترام اور مقام بھی دینا ہے جو کہ ترقی یافتہ اورماڈرن ورلڈ میں ان کوحاصل ہے۔جہاں استاد اگر عدالت میں آ جائے تو جج اعلان کرتا ہے کہ حضرات ایک استاد عدالت میں موجود ہے اور جج سمیت تمام حاضر لوگ اس کے احترام میں کھڑے ہو جاتے ہیں، ہمارے ہاں یہ مقام ایک پولیس کے ہیڈ کانسٹیبل اور اے ایس آئی کو حاصل ہے،جس کو معاشرہ آنے پر بیٹھنے کے لئے اپنی نشست تک آفر کرتا ہے جبکہ استاد آ جائے تو اسے کھڑا رکھا جاتا ہے۔شہباز شریف کو پروٹوکول کے ساتھ عدالت لیجایا جاتا ہے اور اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگا کر۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت اور نجی تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے اساتذہ کا استحصال بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے، سب سے زیادہ استحصال خواتین ٹیچرز کا ہوتا ہے جنہیں 8/6ہزار اجرت دی جاتی ہے جبکہ کم سے کم اجرت 14ہزار مقرر ہے، کبھی کسی صوبائی یا وفاقی حکومت نے اس جانب نہ تو توجہ دی ہے اور نہ دینے کو تیار نظر آتی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومتیں ایسے اداروں کے فروغ کی جانب توجہ دیں جہاں اساتذہ کی تربیت کا اہتمام کیا جائے، نجی اداروں کے لئے کھیلوں کے میدان، اور ہال کا رکھنا لازم ہو، ٹرینڈ ٹیچرز کی تقرری کو یقینی بنایا جائے تبھی جا کر ایک بہترین قوم کا خواب دیکھا جا سکتا ہے۔

About Daily City Press

Check Also

پلاسٹک موت کی گھنٹی

عظمی زبیر پلاسٹک موت کی گھنٹی ! پلاسٹک کا طوفان، پنجاب کی بقا کا سوال …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *