Breaking News
Home / Columns / ” عمران خان اور اسد عمر اسے پڑھیں “

” عمران خان اور اسد عمر اسے پڑھیں “

haroon adeem logo

صورتحال
ہارون عدیم
” عمران خان اور اسد عمر اسے پڑھیں “
ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی،ڈالر جو پیر کو 124روپے25پیسے کا تھا منگل کو 137روپے کا ہو گیا، یوں روپے کی قدر میں 12.75کی ریکارڈ کمی ہوئی، صرف اس جھٹکے سے ملکی بیرونی قرضوں میں 900ارب کا اضافہ ہوا، اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اب گیس، بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا،تمام بوجھ عوام کو برداشت کرنا پڑے گا،ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے اس کی شرائط پوری کرنا ہونگی،ڈالر کی قیمت 150تک بھی جا سکتی ہے،کرنسی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں حالیہ کمی آئی ایم ایف کے دباو¿ کا نتیجہ ہے، اس غیر یقینی صورتحال میں ڈالر کی کی دستیابی مشکل ہے اور انٹر بنک میں استحکام بھی آتا دکھائی نہیں دیتا۔جبکہ چیف اکانومسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے ابھی تک آئی ایم ایف سے رابطہ نہیں کیا،پاکستانی معیشت کو درپیش چیلنجز میں زر مباادلہ کے ناکافی ذخائر اور اصل قدر سے زائد مالیت کی کرنسی کے سبب درپیش ہیں۔دوسری جانب وزیر اعظم نے معاشی صورتحال اور اس سے نپٹنے کی پالیسی پر عوام اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے،وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز نیشنل مینجمنٹ کورس کے شرکاءاور اپنی پارٹی رہنماو¿ں سے خطاب اور صلاح مشورے میں کہا کہ عوام کو بتایا جائے کہ حکومت کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں،جن کی وجہ سے اسے مشکل فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں،نئی حکومت کے چیلنجز ماضی کی حکومتوں سے کہیں زیادہ ہیں، پارٹی مشاورت میںآئی ایم ایف سے قرض لینے ، دوست ممالک سے تعاون اور سرمایہ کاری کے آپشنز کا جائزہ بھی لیا گیا۔ان اعصاب شکن خبروں کے ساتھ ساتھ ایک امید افزا اطلاع یہ بھی ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان 11منصوبوں پر20کروڑ ڈالرز کے معاہدوں پر دستخط ہو گئے ہیں، چینی کمرشل اتاشی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ غیر متوازن تجارتی حجم کو ختم کرنا چاہتے ہیں، جو اس پراپیگنڈے کا خاتمہ کرنے کے لئے کافی ہے کہ پی ٹی آئی کے وزراءنے سی پیک کو ری ویزٹ کے بیانات دے کر چین کو ناراض کر لیا ہے، چینی کمرشل اتاشی کا اقرار کہ چین سی پیک میں پاکستان کے ساتھ معاہدوں میں غیر متوازن تجارتی حجم سے آگاہ ہے اور اس کو ختم کرنا چاہتا ہے، بہتر معاشی مستقبل کی نوید گردانا جا سکتا ہے،یہ تجارتی بہتری فوڈ، زراعت اور سٹیل کے میدان میں لانا قرار پایا ہے، اسی طرح حکومت کا دعویٰ ہے کہ دوست ممالک سعودیہ، امارات کی جانب سے بھی مالی معاونت کا یقین دلایا گیا ہے۔مگر اقتصادی مسائل فی الفور درپیش آئی ایم ایف کی قسط کی ادائیگی ہے، جس کو یقینی بنانے کے لئے قومی خزانہ استطاعت نہیں رکھتا، نئی حکومت کی مشکل یہ ہے کہ انہیں یہ سب کچھ ورثہ میں ملا ہے، ان پر جو دباو¿ ڈالا جا رہا ہے وہ آئی ایم ایف سے قرض لینے میں تاخیر نہ کرنے کا مطالبہ ہے، اپوزیشن کے نزدیک پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے دوست ممالک سے مدد مانگنا ناکام گورننس ہے،ان کے مطابق حکومت کو فی الفور خود کو آئی ایم ایف کے چرنوں میں ڈال دینا چاہئے،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اقتصادی بد حالی سے نکلنے کا حل ہے یا قوم کو قرضوں کی دلدل میں مزید پھنسانے کاعمل۔ ۔۔۔؟ پی ٹی آئی مخالف گروپوں کو گزشتہ حکومت کے آڈیٹر جنرل کی رپورٹ یاد کرنی چاہئے ، جس میں انہوں نے وفاق اور پنجاب حکومت کو تنبیہ کی تھی کہ وہ بیرونی قرضوں کی منظوری اسمبلیوں سے لیںاور ترقیاتی پراجیکٹ قومی وسائل سے چلائیں نہ کہ بیرونی قرضوں سے، جس کے ثمرات اب قوم کو بھگتنے پڑ رہے ہیں، سابقہ حکومت کے آڈیٹر جنرل نے ن لیگی حکومت کو یہ ایڈوائز بھی کی تھی کہ وہ اپنے محصولات، درآمدات اور وسائل میں بہتری لائے۔مگر حکومت اپنی ڈگر پر گامزن رہی، جس کا خمیازہ ہمیں آج بھگتنا پڑ رہا ہے۔
ڈالر کی حالیہ پرواز پر جنرل پرویز مشرف کا دور حکومت یاد آتا ہے، جس میں انہوں نے ڈالر کو60اور62روپے کے درمیان برقرار رکھا، ملک ماس پروڈکشن کی حالت میں آ گیا، آٹو موبائل، گھریلو مشینری جس میں ائیر کنڈیشنر، فریج ، ڈیپ فریزر اور واشنگ مشینیں شامل تھیں ماس پروڈکشن کی وجہ سے سستی ہو گئیں، کیا وجہ ہے کہ پی پی پی اور ن لیگی حکومتیں اس ترقی کو برقرار نہیں رکھ پائیں، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ اس ترقی میں مزید بہتری لاتیں، مگر حقائق تلخ ہیں، گزشتہ دونوں حکومتیں(پی پی پی اور ن لیگ)اپنی کوتاہیوں کا ملبہ مشرف پالیسیوں پر ڈالتی رہی ہیں، مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ مشرف حکومت کو بھی نواز حکومت نے اقتصادی بد حالی ورثے میں دی تھی، ایسے شاٹ اور مڈ ٹرمز قرضوں کی بہتات تھی جن کا مارک اپ یا شرح سود30تا40فیصد تھا، مشرف حکومت نے سب سے پہلے وہ قرضے اتارے پھر فرانس اور سعودیہ سمیت دوست ممالک سے ایک فیصد سے7فیصد کے مارک اپ سے قرضے حاصل کئے، بڑے قرضوں کو 7ساال تک کے لئے فریز کروا لیا، یہ طے پایا کہ سود 7سال بعد شروع ہو گا، جس نے پاکستانی معیشت میں بہتری پیدا کی، تاریخ گواہ ہے کہ مشرف دور میں میڈیا میں آئی ایم ایف کی قسط ادا کرنے کے لئے خالی خزانے اور آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کی خبریں کبھی نہیں شائع ہوئیں۔دوسرا اہم کام جو مشرف نے کیا وہ امداد حاصل کرنے کی بجائے تجارتی حجم بڑھانے پر فوکس کیا اور ڈونر ملکوں سے مطالبہ کیاکہ وہ پاکستانی مصنوعات کو اپنی تجارتی منڈیوں میں کھپنے دیں۔کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم اس تجربے کو ایک بار پھر دہرائیں، جس سے پاکستانی معیشت کے آئی سی یو سے باہر آنے کے امکانات ہیں۔ہمیں نہیں معلوم کی عمران خان کے اکانومی تھنک ٹینک کس نہج پر سوچ رہے ہیں،اور کیا پالیسی بنا پائے ہیں جس پر ہنوز عمل ہونا باقی ہے، مگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر مشرف کے اٹھائے گئے اقدامات اٹھائے جائیں تو معاشی آسودگی حاصل کی جا سکتی ہے۔رہا معاملہ عوام اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کا تو بہتر ہو گا کہ اس پر جتنی جلدی عمل درآمد کیا جائے اتنا ہی بہتر ہو گا دو دن پیشتر ہم نے انہیں صفحات پر عرض کیا تھا کہ”لوگوں میں اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت ہے، ان سے صرف اور صرف سچ بولنے کی ضرورت ہے، کھوکھلے وعدوں اور نعروں سے اجتناب برتنے کی ضرورت ہے، یقینا وزیر اعظم نے قوم کو اعتماد میں لیا ہے، ایسا بھی پہلی بار ہوا ہے کہ جنہوں نے مہنگائی کا بوجھ اٹھانا ہے ان کے سامنے چوائس رکھی گئی ہے کہ دو ہی رستے ہیں یا تو چند دوست ممالک ہمارے ریزورز میں ڈالرز جمع کروا دیں، تا کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے، یا پھر ہمیں گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھانی پڑیں گی۔جمہوری اور سیاسی عمل کی یہی خوبصورتی ہے کہ عوام میں ”اشتراک عمل“ پیدا کرتے ہیں، جو کہ عوام میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ وہ بھی اپنے بارے میں ہونے والے فیصلوں میں شریک ہےں، اور یہی شراکت عمل ایک قوم بناتا ہے۔ “بہتر ہو گا کہ جیسا کہ عمران خان کہتے آئے ہیں کہ وہ عوام سے کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے، ان کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے، وہ اپنے وعدے کی پاسداری نباہیں گے۔

About Daily City Press

Check Also

پلاسٹک موت کی گھنٹی

عظمی زبیر پلاسٹک موت کی گھنٹی ! پلاسٹک کا طوفان، پنجاب کی بقا کا سوال …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *