کیا شفاف احتساب ممکن ہوسکے گا؟
مکالمہ
سلمان عابد
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں احتساب کا نعرہ قانون کی حکمرانی کے مقابلے میں عملی طو رپر سیاسی سمجھوتوں کا شکار ہوا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں سیاسی اور فوجی حکمران طبقات نے احتساب اور قانون کی حکمرانی کو اپنے اقتدار کو طاقت فراہم کرنے کے لیے ” بطور ہتھیار“ کے طو رپر استعمال کیا ہے ۔جمہوری نظام میں جب حکومت او رحزب اختلاف کی سیاست خود ایک قدم آگے بڑھ کر احتساب کو محض سیاسی نعرے یا ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کی سیاست کی بنیاد پر کچھ لو اور کچھ دو کے طور پر استعمال کریں تو قانون کی حکمرانی سمیت جمہوریت سیاست کا بھی جنازہ نکلتا ہے ۔ماضی کی دو بڑی حکمران جماعتوں جن میں پیپلز پارٹی او رمسلم لیگ ن نمایاں ہیں نے احتساب کے نام پر ایک دوسرے کی کرپشن ، بدعنوانی ، اقرا پروری او رلوٹ مار پر جو سیاسی سمجھوتے کرکے ایک دوسرے کے جرائم پر پردہ ڈالا تھا اس نے شفافیت پر مبنی سیاست اور جوابدہی کے نظام کو سخت نقصان پہنچایا۔حالانکہ میثاق جمہوریت کے معاہدہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد نیب کے مقابلے میں ایک آزاد اور خود مختار احتساب کمیشن بنا کر جوابدہی کے نظام کو مضبوط ، موثر اور شفاف بنائیں گے، مگر وہ کچھ نہ کرسکے ۔وزیر اعظم عمران خان کی سیاست کا ایک بنیادی نکتہ کرپشن، بدعنوانی پر مبنی سیاست کا خاتمہ او رکڑے احتساب سے جڑا ہوا تھا ۔ اسی بنیاد پر وہ انتخاب جیتے بھی ہیں ۔ان کے بقول ان کی پہلی اور بڑی سیاسی ترجیح بلاتفریق احتساب کا عمل ہوگااور یہ عمل کسی ایک فرد یا خاندان یا فریقین تک محدود نہیں ہوگا بلکہ سب کو اس کے دائرہ کار میں لایا جائے گا ۔لیکن پچھلے دنوں ”قومی احتساب بیورو“ یعنی نیب کے بارے میں چیف جسٹس نے فرمایا کہ ” حکومت اور عدلیہ نے احتساب کا نعرہ لگایا، لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکل سکا ۔“ان کے بقول عدلیہ نے نیب کی مکمل مدد کی مگر ان کی جانب سے تحقیقات او رریفرنسز دائر کرنے کی خبریں آتی ہیں ، مگر کرپٹ لوگوں کو منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جاسکا ۔بنیادی طور پر چیف جسٹس نے نیب کی کارکردگی پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے ہیں او ران کے بقول نیب کے کچھ نہ کرنے سے سارا بوجھ عدلیہ پر آگیا ہے ، جو درست حکمت عملی نہیں ۔بنیادی طور پر پاکستان کے لوگ ایک منصفانہ اور شفاف نظام کی خواہش رکھتے ہیں ۔ احتساب کے تناظر میں بھی وہ محض سیاسی مخالفین کے مقابلے میں ایک بلاتفریق کڑے احتساب کے حامی ہیں ۔کیونکہ مسئلہ سیاست دانوں سمیت کسی ایک فریق کا نہیں ۔ا س کرپشن او ربدعنوانی کے حمام میں سب ہی فریق ننگے ہیں او ربہت سے طبقات کا دامن شفافیت کے مقابلے میں داغدار ہے ۔لیکن کیونکہ ماضی میں احتساب کو بطور ہتھیار سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا تو لوگوں میں عملا اس کی شفافیت کے حوالے سے کافی شکوک و شبہات ہیں ۔مسلم لیگ ن بھی اس سوچ او رفکر کو بنیاد بنا کر اسی نکتہ کو اجاگر کررہی ہے کہ حکومت کا احتساب محض شریف خاندان تک محدود ہے او راس میں بھی شفافیت کم اور سیاسی انتقام کی شدت زیادہ ہے ۔
وزیر اعظم عمران خان نے یہ نعرہ دیا کہ وہ ملک سے لوٹی گئی دولت کو باہر سے لانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے ۔ اس کے لیے ابتدائی طور پر ان کو مجرموں کے حوالگی اور لوٹی ہوئی دولت کی واپسی پر برطانیہ، دوبئی سمیت کچھ ملکوں سے معاہدے کی طرف پیش رفت بھی ہوئی ہے ۔ وزیر اعظم اور چیرمین نیب کے درمیان ایک تفصیلی ملاقات بھی ہوئی او رایف آئی اسے سمیت ایک سپیشل ٹاسک فورس بھی کافی سرگرم ہے ۔ دوبئی میں موجود تین سو پاکستانیوں کی جائدادوں کی تفصیلات بھی سامنے آچکی ہیں ۔لیکن اس کے باوجود احتساب کے عمل میں بہت زیادہ سیاسی سمجھوتے اور سیاسی و قانونی رکاوٹیں غالب نظر آرہی ہیں۔ پنجاب ہی میں شہباز شریف کے دور میں بننے والی 55کمپنیوں کے میں بڑے پیمانے پر مالی بے ضابطگیاں ، کرپشن، بدعنوانی ، صاف پانی منصوبہ، میٹرو منصوبے، سانحہ ماڈل ٹاون ، فواد حسن فواد ،احد چیمہ سمیت کئی بیوروکریٹ کی گرفتاری اور ان سے کی جانے والی تفتیش کا سست عمل یا سیاسی سمجھوتے انصاف کے تقاضوں کا مذاق آڑارہے ہیں ۔کئی کئی ماہ تک جاری تفتیش کا عمل کچھ بھی حتمی نتائج نہیں دے سکا ۔بیوروکریسی اس احتساب کو حتمی نتیجے تک لے جانے میں ایک بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے ۔کیونکہ احتساب کا شکنجہ مضبوط ہوتا ہے تو خود کئی بڑے بڑے بیوروکریٹ بھی قانون کے شکنجے میں آسکتے ہیں ۔نیب جس انداز سے معاملات کو چلارہی ہے اس سے بھی ان کی تیاری ، ہوم ورک اور ٹھوس بنیادوں پر کام کرنے کا فقدان غالب ہے ۔جن لو گوں کے خلاف احتساب ہونا ہے وہ کئی قانونی پیچیدگیوں کو بنیاد بنا کر ضمانت پر رہا ہیں او رقانون ان کے سامنے بے بس نظر آتاہے ۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ اول نیب کو مضبوط بنانے کے لیے حکومتی سطح پر جو کچھ ہونا چاہیے تھا اس کا فقدان تھا ۔ نیب جیسے ادارے کو کمزور رکھنا او رسیاسی مداخلت سے سیاسی فوائد حاصل کرنا کرپٹ ا ور بدعنوان طبقہ کی ضرورت تھا ، جس میں حکمران طبقہ بھی پیش پیش تھا۔اصل میں وزیر اعظم عمران خان او ران کی حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ اس ملک میں احتساب کا شفاف او ربلاتفریق عمل معمول کے حالات اور قانون سے ممکن نہیں ۔ اس کے لیے حکومتی سطح پر ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کے ساتھ ساتھ ” غیر معمولی اقدامات، پالیسی ، قانون ،طریقہ کار ، حکمت عملی “ وضع کرکے نتائج کے حصول کی جانب پیش رفت کرنا ہوگی ۔اس لیے ضروری ہے کہ حکومت پہلے سے موجود نیب جیسے ادارے کی صلاحیتوں ، کمزوریوں اور خامیوں کی طرف توجہ دے کہ اس ادارہ کو کیسے خود مختاراو رمضبوط بنیادوں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے ۔ پارلیمان کی سطح پر پبلک اکاونٹس کمیٹی کو کیسے فعال کیا جاسکتا ہے او رکیسے اس کی کارکردگی کو ایک خاص ٹائم فرئم میں لایا جاسکتا ہے ۔ نیب، ایف آئی اے ، ایف بی آر جیسے اداروں کی فعالیت سمیت تفتیش کے نظام میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ۔ مسئلہ محض ٹاسک فورس بنانا نہیں بلکہ پورے ریاستی ، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام میں موجود ڈھانچوں میں ایک بڑی سرجری کی ضرورت ہے ، کیونکہ یہ ادارے عملی طور پر سیاسی مداخلتوں کے باعث کافی برباد ہوئے ہیں ۔اس میں اہل دانش کو سیاسی سوچ اور پسند وناپسند سے ہٹ کر کرپشن اور بدعنوانی پر مبنی سیاست کے خاتمہ میں رائے عامہ تشکیل دینی چاہیے کیونکہ یہ عمل قانون کے ساتھ ساتھ ایک بڑی سماجی تحریک سے بھی جڑا ہوا ہے جو کرپشن او رکرپٹ لوگوں کے خلاف جہاد کرے یا سماجی شعور کو اجاگر کرے کہ ہمیں کرپشن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا اسی طرح وزیر اعظم عمران خان کی اہم ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ اول یہ احتساب کسی ایک جماعت یا فرد کے طور پر نظر نہیں آنا چاہیے، یہ عمل محض اعلانات تک محدود نہ ہو بلکہ لوگوں کو واضح اور شفاف طور پر نظر آئے کہ احتساب بلاتفریق ہے اور سب فریقین کو اس دائرہ کار میں لایا جارہا ہے ۔ دوئم وفاقی نیب کے ساتھ ساتھ صوبائی سطح پر قائم نیب کے اداروں کو زیادہ مضبوط کیا جائے ، کیونکہ سارا بوجھ وفاق تک محدود نہیں ہونا چاہیے اور صوبائی اداروں کو بھی فعالیت کے ساتھ کام کی رفتار کو بڑھا کر شفافیت کے بہتر نظام کو طاقت دینی ہوگی ۔سوئم ان تمام احتساب سے جڑے اداروں میں سیاسی یا حکومتی سطح سے مداخلت ختم ہونی چاہیے او رجن افراد کا چناو کیا جائے اس کی بنیاد سیاسی کم او رمیرٹ سے زیادہ جڑی ہو، چہارم ان احتساب سے جڑے اداروں کی کڑی نگرانی اور خود ان اداروں کا داخلی جوابدہی یا احتساب کا نظام مضبوط ہو تاکہ یہ بھی کسی سیاسی سمجھوتوں یا اقرا پروری کا شکار نہ ہوں۔اگرچہ احتساب کا عمل کوئی جادوئی عمل نہیں لیکن حکومت کے پہلے سو دنوں میں اس کی ایک واضخ جھلک قوم کے سامنے آنی چاہیے ۔ کیونکہ مسئلہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے خلاف اس ملک میں احتساب ہونا چاہیے وہ جس دیدہ دلیری اور بہادری سے قانو ن کے شکنجے سے باہر ہیں وہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ۔کیونکہ جب تک وہ لوگ جن کو احتساب کے کڑے دائرہ کار میں آنا چاہیے باہر رہیں گے اس سے ملک میں احتساب کے ایجنڈے کو کوئی طاقت نہیں مل سکے گی۔ یہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ اس ملک میں طاقت ور لوگ قانون، حکومت اور ریاستی نظام کی مدد سے جرائم میں سزا سے بچ جاتے ہیں اور یہ سب کچھ محض کمزورطبقہ تک محدود رہتا ہے ۔یہ جو کرپشن او ر بدعنوانی کا زہر پھیلا ہے اور پھیل رہا ہے اس کی ایک ہی وجہ کمزور احتساب اور سیاسی سمجھوتوں کا نظام ہے جو جو شفاف احتساب میں رکاوٹ ہے ۔
کالم نگار سے رابطہ
salmanabidpk@gmail.com