Breaking News
Home / Columns / زیبائشی پردہ۔

زیبائشی پردہ۔

زیبائشی پردہ۔۔ کاملہ حیات

Kamila hayat

راقم الحروف ایک فری لانس کالم نگار اور اخبارکی سابقہ ایڈیٹر ہیں

Email: kamilahyat@hotmail.com

عمران خان اور ان کی پی ٹی آئی حکومت نے اقتدارمیں آنے کے بعد کفایت شعاری پرسختی سے عمل کرنے کاوعدہ کیاتھا جس کی ملک بھرمیں بہت پذیرائی کی گئی تھی ۔ مگروہ سب امیرانہ انداز کی زندگی میں پڑگئے ہیں۔ ایک ملک جووسائل کے لئے ایڑیاں رگڑرہاہے اورپیسہ جوبہترمقاصد اورعوام کی فلاح  کے لئے استعمال کیا جاسکتاتھا وہ سب پیچھے رہ گیا۔جیساکہ کفایت شعاری خوش آئند منصوبہ تھااورہے۔

لیکن ہم  نے دیکھا کہ جس انداز میں کفایت شعاری اس وقت اپنائی جارہی ہے اس پرہمیں کچھ تشویش ہے۔ گورنرہاؤسز کوعوام کے لئے کھولنا مکمل طورپرایک بناوٹی اقدام ہے۔ یہ شایدعوام سطح کااقدام ہے اوراسے وڈیرہ شاہی کی حوصلہ شکنی کااقدام سمجھاجائے اس کی بجائے ملک کوکسی بڑی تبدیلی کی ضرورت تھی جہاں آبادی کاایک تہائی حصہ غربت کی لکیرکے نیچے زندگی بسرکررہاہے اور پچاس فیصدکے قریب بجوں پرعرصہ حیات تنگ ہے۔ ان مسائل کے خلاف بناوٹی اقدامات سے کوئی مددنہیں ملے گی۔ ہمیں ایک سوچی سمجھی دوررس جامع پالیسی کی ضرورت تھی  جومعاشی اورحکومتی پالیسیوں میں اصلی تبدیلی لاتی۔

یہ رپورٹس کہ کچھ وزرا کفایت شعاری پالیسی کو اپنی خود نمائی کے طورپرپیش کررہے ہیں بھی تشویش ناک ہیں۔ حال ہی میں ایک سینئروزیرٹی وی چینلز کی ٹیم کولے کرایئرپورٹ گئے اور اس انداز میں لائن میں عام لوگوں کی طرح کھڑے ہوئے اورسکیورٹی گارڈ وہاں بھی ان کے گرد ڈیوٹی کرتے رہے۔ ایسے اقدامات سے ملک کوکچھ بچت نہیں ہوسکتی۔

یہاں دیگرچیزیں بھی ہیں جوقابل غورہیں۔ وزیراعظم ہاؤس کو عجب انداز میں ایک بہترین ریسرچ یونیورسٹی میں تبدیل  کرنااصولی طورپر ایک اچھاخیال لگتاہے تاہم اصل ضرورت اس امرکی ہے کہ تربیت کاایک ایسا ادارہ کھولاجائے جوآپ کی نوجوان نسلی کی تربیت کے لئے معاون ثابت ہو۔ اورایساہونا ایک ہائی سکیورٹی زون میں ممکن نہیں۔ اس کی بجائے ہمیں ایسے تعلیمی اداروں کی ضرورت ہےجن کی فیکلٹی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ارکان ہوں اورپھرایسے ہی ماحول کوفروغ دیاجائے۔

حالیہ اقدامات  کاتاثراتناقابل عمل نظرنہیں آتا۔ نوآبادیاتی دورکے لاہورمیں بنے گورنرہاؤس کوحصوں میں بانٹ کرتباہ کردیاگیاہےجہاں گورنرکمیٹی کی اجازت سے آنے دیتاجواس مقصد کے لئے بنائی گئی تھی کہ یہ اجازت نامہ پالیسی پرکیسے اثراندازہوگا۔ اب پل چھپ گیاہے، جھاڑیوں والی جگہ سامنے آگئی ہے اور سرسبزلانز میں بیت الخلابنادیئے گئے ہیں۔ تاہم کراچی میں عوام کے داخلے کی اجازت دینے میں سمجھداری سے کام لیاگیا اور اسے مرتب انداز میں انتظام میں لایاگیاہے۔

گورنرہاؤسز کو عجائب گھروں یاآرٹ گیلریز میں تبدیل کرکے عوام کے لئے کھول دینے کااصولی فیصلہ اچھافیصلہ ہے۔لیکن اس میں رکھنے کے لئے عجائبات کہاں سے لائے جائیں گے؟ 1988میں بے نظیر بھٹوکے دورمیں قائم کی گئی مگراس سے کوئی کام نہ لیاگیا۔ میوزیم قائم کرنے کے لئے بہت پیسہ چاہئے اوربہت زیادہ حفاظت بھی۔

صرف ایسے اقدامات نہیں چاہئیں جوصرف ہیڈلائنز کاحصہ بننے کے لئے یا وہ بناوٹی ہوں یہ اقدامات مستقل بنیادوں پرکرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں ہالیند یانیوزی لینڈ جیسے ممالک ہیں جہاں وزرائے اعظم اور وزراآنے جانے کے لئے بائیسیکل استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں سکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے عملاً ایساممکن نہیں تاہم کفایت شعاری کےنام پر اسلام آباد سےہیلی کاپٹرکے ذریعے بنی گالاجانابھی توکوئی کفایت شعاری نہیں۔

کچھ مثبت اقدامات بھی اٹھائے گئے ہیں جیسے رہنماؤں کے کاروں کے قافلوں میں کمی کی گئی ہے۔ یہ کسی بھی شخص یاخاتوں کے لئے غیرضروری ہے کہ اس کے ساتھ تئیس سے زائدلگژری گاڑی کادستہ ہو۔ لیکن شایدان چیزوں پرمسلسل عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ پاکستانی کاریں استعمال کرکے ملکی انڈسٹری کوترقی دیانا جیسے کہ سوزوکی کے استعمال کورواج دینا،ایسے اقدامات مقصد ہوناچاہئے۔ ایسابھارت میں ہوتا ہے جہاں مقامی طورپربنائی گئی گاڑی ماروتی کو کئی دہائیوں سے وہاں کے وزرائے اعظم استعمال کررہے ہیں۔ ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ جہاں وزراکومدعوکیاگیاوہاں دعوت میں بہت کم ڈشزکااہتمام کیاگیا۔ ایساکلچرملک بھرمیں متعارف کرایا جاناچاہئے۔

کینیڈا میں جسٹس ٹروڈ اس بات کے لئے مشہورہیں کہ وہ ریاست کے سربراہوں کے اعزاز میں اپنے ذاتی گھر کے لان میں رات کے کھانے کی سادہ ترین دعوت کرتے ہیں  جبکہ ان کے بچے پچھلے لان میں کھیلتے نظرآتے ہیں اورلیڈردعوت میں ٹیبلز سے اپناکھاناخود پلیٹوں میں ڈالتے ہیں جہاں چندایک ڈشز اورسلاد رکھی گئی ہوتی ہیں۔ ایسے معاملات سے جسٹن ٹراؤڈ کی حیثیت پرکوئی منفی اثرنہیں پڑتا۔ اگرچہ پی ٹی آئی کے وزراپہلا قدم اٹھانے میں تذبذت سے کام لے رہے ہیں مگرہمیں ایسے اقدامات کی ضرورت ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ نیاپاکستان کے نعرے صرف سطحی اقدامات پرمشتمل نہیں ہونے چاہئیں۔ اس کے لئے بہت گہری تبدیلی درکارہے۔ ضرورت ایسے عمل کی ہے کہ جس سے ہمارے بھوکے لوگوں کو کھاناملے،غریب بچوں کوایسی خوراک ملے کہ وہ فطری انداز میں پروان چڑھ سکیں۔ ملک بھرمیں ایسے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں ہرامیرغریب کابچہ تعلیم حاصل کرسکے۔ ہاں یہ اقدامات گورنرہاؤسزکے دروازے کھول دینےکے معاملے میں انتہائی مشکل ہیں۔ مگریہی ایک راستہ ہے جس میں تبدیلی ہے۔ موٹرسائیکل سواروں کاہیلمٹ پہننااچھی تبدیلی ہے تاہم مگراس سے ایسے ملک میں حقیقی تبدیلی نہیں آسکتی جہاں لوگ بعدمیں آتے ہیں مگر ان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔

معاشی،معاشرتی اور سیاسی شعبوں میں ایسی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے جہاں لوگ پہلے آئیں۔ اصل میں یہ سب پہلے ہوناچاہئے تھا۔ آخرکارپی ٹی آئی گزشتہ دودہائیوں سے اقتدارمیں آنے کی تیاریاں کررہی تھی۔ اب وہ اقتدارمیں آچکی ہے۔ یہ واضح ہوناچاہئے کہ کیامقاصد حاصل کرنے ہیں اورکیسے کرنے ہیں۔ نیاملک بنانے کے لئے انتہائی خلوص اور بنیادی اقدامات ضروری ہیں جیسے کہ نکاراگوامیں سینڈنیسٹاس نے لئے جس کے نتیجے میں 1979میں انتہائی قابل نفرت اناسٹاسیو سوموزاکی حکومت کاتختہ الٹا۔

اس کے بعدنکاراگواکی موجودہ شکل نکلی ۔ وہاں جزیرے کے ہرحصے میں سکول کھلے ہوئے ہیں۔ جہاں بچوں کوپڑھانے کے لئے استادرضاکارانہ طورپراپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ وہاں باتھ روزم کو بھی ورکنگ پلیسز میں تبدیل کردیاگیاہے۔ یہ ہے تبدیلی۔ اسٹاف کم کرکے بچایاگیاسرمایہ صحت کے شعبے میں لگایاگیا۔ ایسے اقدامات یقینی طورپرایک چھوٹے سے ملک میں آسان تھے۔ تاہم ایساصرف1990تک رہا تاہم امریکا نے حکومت کونظریات خطرہ قراردے کرنکال باہرکیا۔

اُسی نوعیت کی بڑی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ضروری نہیں کہ اُنہی نطریات پربھی عمل کیا جائے۔ ہمیں ذمہ داری،نظریات، ایک نئی بصیرت اور ایک تحریک اور ان اقدامات کے نفاذ کے لئے اچھی تحریک کی ضرورت ہے۔ موجودہ صورتحال میں جوکچھ ہورہاہے یہ عمران خان کے لئے ٹھیک نہیں۔ ملک کوٹھیک کرنے کے لئے انہیں اپنے گرداچھے مشیروں کی فوج رکھنا ہوگی جوملک کومسائل سے نکالنے کے لئے تجاویزدے۔

بشکریہ: دی نیوز

ترجمہ : محمدفاروق سپرا

About Daily City Press

Check Also

پلاسٹک موت کی گھنٹی

عظمی زبیر پلاسٹک موت کی گھنٹی ! پلاسٹک کا طوفان، پنجاب کی بقا کا سوال …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *