حکومتی مشکلات اور صلاحیت کا امتحان
مکالمہ
سلمان عابد
حزب اختلاف کی سیاست کے مقابلے میں حکومت کرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے ۔ کیونکہ عمومی طور پر لوگوں کی بڑی سیاسی توقعات جن کا براہ راست تعلق عوامی مفادات سے ہوتا ہے وہ حکومت سے ہی ہوتی ہیں ۔ خود حکومت کسی کی بھی ہو وہ یہ ہی دعوی کرتی ہے کہ اس کی حکمرانی کی ساری توجہ کا مرکز عام لوگوں کی ترقی اور خوشحالی سے ہوتا ہے ۔جمہوریت کی ایک بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس میں حزب اختلاف ایک متبادل حکومت کا درجہ رکھتی ہے اور اس کے پاس حکمران طبقات کے مقابلے میں ایک متبادل حکمرانی کا نظام ہوتا ہے ۔لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں نہ تو اچھے حکمران مل سکے او رنہ ہی اس قوم کو اچھی حز ب اختلاف مل سکی ۔تحریک انصاف کی حکومت بھی بڑے بڑے سیاسی نعروں اور دعووں کے ساتھ اقتدار کے سیاسی میدان پہنچی ہے ۔ اقتدار میں آنے سے قبل ان کی سیاست میں ” تبدیلی کے نعرے “ کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ۔ وزیر اعظم عمران خان نے دعوی کیا تھا کہ ان کا اقتدار ماضی کے حکمرانوں کی حکمرانی سے بہت مختلف بھی ہوگا اور لوگوں کو تبدیلی کا عمل واضح اور شفاف انداز میں نظر بھی آئے گا۔اسی سوچ اور فکر کی بنیاد پر وزیر اعظم عمران خان کی حکمرانی کا دور شروع ہوا ہے ۔ لوگ بہت زیادہ جذباتی ہیں اور بہت جلد اس ملک میں تبدیلی کا عمل دیکھنا چاہتے ہیں ۔پانچ برس تو بہت دور کی بات ہے جو جذباتی سیاست کا غلبہ ہے اس میں لوگ تین یا پانچ ماہ میں ہی بڑی بڑی تبدیلیوں کی امید لگائے بیٹھے ہیں ۔ لوگوں کو یقین ہے کہ کوئی جادوئی عمل سے سب کچھ اچانک ٹھیک ہوجائے گا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان بہت کچھ بدلنا چاہتے ہیں ۔ اس کی ایک جھلک ہمیں بطور وزیر اعظم ان کی جانب سے روزانہ کی بنیادوں پر مختلف فریقین سے اجلاسوں کی کہانی کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے کہ وہ روائتی طرز کی سیاست یا حکمرانی کے مقابلے میں ایک نئی طرز کی حکمرانی کو تقویت دینا چاہتے ہیں۔کیونکہ یہ حکومت کی ابتدائی زندگی ہے اور اس میں بہت سارا حصہ ان کی منصوبہ بندی اور سوچ وبچار میں خرچ ہورہا ہے ،لیکن یہ ہنی مون جلد ختم ہوگا اور لوگ اس منصوبہ بندی سے باہر نکل کر براہ راست حکومتی کارکردگی سے جڑے نتائج پر بات کریں گے کہ عملا حکمرانی کے نظام نے عام لوگوں کو کیا دیا ہے ۔کسی بھی نئی حکومت کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں ۔ اول وہ ماضی کی حکومتوں کی طرز پر روائتی یا پہلے سے جاری مروجہ حکمرانی کے نظام کو آگے بڑھا کر کام کرے ۔ دوئم حکومت ماضی کے مروجہ حکمرانی کے نظام کو چیلنج کرکے ایک نئے نظام کی جانب بڑھے ، یہ راستہ مشکل بھی ہے اور کٹھن بھی ۔کیونکہ دوسرے راستے میں پہلے سے موجود طاقت ور طبقات جو اس مروجہ نظام سے فوائد اٹھارہے ہیں وہ آسانی سے تبدیلی کے عمل کو قبول نہیں کریں گے ۔بلکہ ان کی کوشش ہوگی کہ اگر کوئی پہلے سے مروجہ نظام کو چیلنج کرے تو اس میں اس طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی جائیں کہ حکمرانی کے نظام میں ایسی کوئی بڑی تبدیلی رونما نہ ہو جو طاقت ور طبقات کی حکمرانی کو چیلنج کرسکے ۔
تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں تین باتیں پہلے تسلیم کرنا ہونگی ۔ اول یہ جو تحریک انصاف کا دعوی تھا کہ ان کے پاس اچھی او ربہتر حکمرانی کے لیے پہلے سے ہوم ورک موجود تھا ، غلط ثابت ہوا۔ یقینی طور پر ان کے پاس خاکہ موجود ہوگا مگر اس خاکہ کی تفصیلات میں بہت کمزوری دکھائی دیتی ہے ۔ دوئم تحریک انصاف کی یہ حکومت اتحادیوں کی مرہون منت کھڑی ہے جہاں اسے اپنے اقتدار کے لیے اتحادیوں کی صورت میں کئی سیاسی سمجھوتے بھی کرنے پڑرہے ہیں جو ان کے لیے خود ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے ۔سوئم ایک بڑے سیاسی اور انقلابی سمیت غیر روائتی ایجنڈے کی سیاست کو بڑھانے کے لیے جو سیاسی ، انتظامی ٹیم درکار تھی اس میں بھی کافی کمزوری نظر آتی ہے ۔لیکن ان سب باتوں کے باوجود اصل مسئلہ ترجیحات کی درست طور پر نشاندہی اور تعین کا ہے ۔ کیونکہ سیاست کو ہمیں کبھی بھی ایک رومانوی کردار کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے ۔ سیاست کے جو اس وقت تلخ حقایق ہیں اور جو سیاسی ابتری موجود ہے اسی میں رہتے ہوئے ہمیں اصلاح کی طرف پیش قدمی کرنی ہوگی ۔اصل مسئلہ وزیر اعظم کے حکمرانی کے سیاسی فہم و فراست کا ہے او راس کا باہمی تعلق ان کی کابینہ، مشیروں ٹاسک فورس او ربیوروکریسی یا انتظامیہ سے جڑا ہوا ہے ۔ یعنی اگر جو کچھ وزیر اعظم چاہتے ہیں او رجو لوگ ان کے ساتھ ہیں ان میں سوچ و فکر کا تضاد ہوا تو کامیابی کے امکانات بہت محدود ہوجاتے ہیں اورروائتی سیاست کو غلبہ حاصل ہوجاتا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کو اب یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اگرچہ حکمرانی کے چیلنجز بہت بڑے بڑے ہیں ۔ جس انداز سے یہاں حکمرانی کے نظام کو مختلف حکمرانوں نے چلایا وہ آج سب کے لیے ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے کہ اس سے کیسے نمٹا جائے ۔مگر اس کا علاج بھی ہمیں ایک مضبوط، موثرسیاسی حکمت عملی اور بہتر ٹیم کے انتخاب سے ہی ممکن ہوگا ۔حکومت کی بڑی کامیابی محض حکومت تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ اس کی اصل ذمہ داری حکمران سیاسی جماعت کی ہوتی ہے ۔ وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ حکمرانی کے نظام کو مربوط بنانے کے لیے اپنی سیاسی جماعت او راس کے کارکنوں کو بھی حکمرانی کے نظام کا حصہ بنا کر آگے بڑھیں گے تو یہ حکمت عملی زیادہ سود مند ہوگی ۔
بعض اوقات حکومت میں شامل لوگ بہت کچھ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ، لیکن عملی طور پر ان کی صلاحیتوں کا فقدان غالب نظر آتا ہے ۔حکومت او راس کی ٹیم میں صلاحیت کا عمل کیسے طاقت پکڑے گا یہ ہی وہ بنیادی نوعیت کا سوال ہے جو آج کے حکمرانوں کی حکمرانی سے جڑا نظر آتا ہے ۔حکومت نے ایک اچھی کوشش یہ کی ہے کہ مختلف شعبو ں میں بہتر نتائج کے حصول کے لیے مختلف معاملات پر ٹاسک فورسز بنادی ہیں اور وزیر اعظم خود براہ راست ان کی نگرانی کررہے ہیں او ر ان میں مختلف شعبہ جات کے ماہرین کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔ ٹاسک فورسز کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ معاملات میں سست روی کا شکار ہوجاتی ہیں اور ان کی سفارشات کی تیاری میں جو تاخیری حربے سامنے آتے ہیں اس سے بہتر نتائج کا حصول بھی مشکل ہوجاتا ہے ۔خود حکومتی سطح پر ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جو ان ٹاسک فورسز کو اپنا متبادل حریف سمجھ کر ان کے کاموں میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا سبب بھی بنتے ہیں ۔
اگرچہ حکومت کے پاس پانچ برس ہیں ۔لیکن پہلے ہی برس میں حکومت کی صلاحیتوں او ران کی مختلف نوعیت کی حکمت عملی کا امتحان سامنے آجاتا ہے ۔ ایک برس یا چھ ماہ میں یہ اندازہ لگانا کسی حد تک ممکن ہوجاتا ہے کہ حکومت کی سمت درست ہے یا وہ بھی ماضی کے حکمرانوںکی طرح غلط سمت کی طرف چل پڑی ہے ۔ایک مسئلہ یہ ہے کہ یہاں حکمران طبقات خود کو عقل کل سمجھتے ہیں او ران کا خیال ہے کہ ہمیں سب کچھ آتا ہے ۔حالانکہ ایسا عملی طور پر نہیں ہوتا اور وہ کچھ نیا سیکھنے کی بجائے اپنے پرانے فرسودہ علم اور صلاحیت کی بنا پر حکمرانی کے نظام میں اور زیادہ بگاڑ کا سبب بنتے ہیں ۔وزیر اعظم عمران خان جو کچھ چاہتے ہیں اس کے لیے ان کو اپنی ٹیم او رکابینہ کی تربیت پر ضرور توجہ دینی چاہیے او ران کو یہ باور کروانا چاہیے کہ ان کی اچھی حکمرانی سے مراد کیا ہے اور اس میں ان کی ٹیم کو خود کیا کردار ادا کرنا ہے ۔یہ کام محض تقریر سے نہیں ہوگا بلکہ ان کے سامنے ایک عملی خاکہ پیش کرنا ہوگا اور ان کو بھی حکمرانی کے نظام میں بے لگام کی بجائے جوابدہی کے نظام کا حصہ بنانا ہوگا۔جس انداز میں وزیر اعظم عمران خان نے حکمرانی میں سادگی ، وسائل کے منصفانہ استعمال، صوابدیدی اختیارات کا خاتمہ ، بے جا خرچ اور مراعات کے خاتمہ کا اعلان کیا ہے وہ خوش آئند ہے ،لیکن اس پر حکومت کو مرکزی اور صوبائی سطح پر بلاتفریق عمل درآمد کے نظام کو موثر اور شفاف بنانا ہوگا۔وزیر اعظم عمران خان حکمرانی کے نظام میں ایک بڑے امتحان گاہ میں داخل ہوچکے ہیں۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ وہ جو کچھ اقتدار سے باہر تبدیلی کے تناظر میں کہتے تھے اب عملی طور پر قوم کے سامنے اس تبدیلی کو پیش کریں تاکہ واقعی لوگوں کو لگے کہ ان کی زندگیوںمیں صرف مصنوعی تبدیلی نہیں بلکہ واقعی نظام کی تبدیلی کا عمل سامنے آیا ہے ، اگر ایسا ہوسکا تو عمران خان کی حکومت واقعی تبدیلی کا ایک بڑا سبب بن سکتی ہے ۔
salmanabidpk@gmail.com