مساوات کی تلاش۔۔۔۔
منیب قادر
اگرکوئی مخصوص ہفتہ جب بظاہربین الاقوامی سفارتکاری کو ترک کیا گیاہے تووہ گزشتہ ہفتہ ہے۔ نہ صرف برطانوی وزیراعظم ٹریسامے کویورپ کی جانب سے سلیزبرگ میں یورپ کی جانب سے انتہائی معقول بیکسٹ ڈیل پر جھاڑسنناپڑی بلکہ امریکابھی چین کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے بعد تجارتی ٹیرف کے معاملے پر خوشی مناتارہا۔
جبکہ دونوں کوریاؤں کے وفود نے بھی ایٹمی طورپرغیرمسلح ہونے کے منصوبے پر بھی بات کی، پاکستان اور بھارت کے درمیان امن مذاکرات کے پس منظرمیں یہ امید کی وہ کرن ہے جوافق پرجگمگارہی ہے ۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنے بھارتی ہم منصب نریندرامودی کو انتہائی گرمجوشانہ انداز میں دونوں ملکوں کے درمیان متنازعہ معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی دعوت دی۔
ایک ایسی دنیا جہاں نفرت کا بیانیہ مقبولیت حاصل کررہاہے میں عالمی میڈیا کی جانب سے منفی تصویرمیں پیش کئے جانے والے پاکستان کی جانب سے اس سطح کی سنجیدگی تازہ ہواکاجھونکاتھی۔ تاہم اس پیشکش کانتیجہ خوشگواریت پرمختتم نہیں ہوا۔ دنیا صبرسے دوربھاگ رہی ہے جہاں ایسی مصالحتی پیشکش کو کمزوری سمجھا جاتااور غروراوراناکوپسندکیا جاتاہے۔
بی جے پی حکومت کی جانب سے موہوم سامثبت جواب آیا جب نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کے اہتمام کی حامی بھری گئی۔ تاہم بھارتی میڈیا کی جانب سے اپنی حکومت کی ایسی تیسی پھیری گئی کہ امن مذاکرات کی جانب ان کے جھکاؤکی مذمت تک کردی گئی۔
اچانک ہی بھارتی ٹی وی چینلز نے لائن آف کنٹرول پر بی ایس ایف کے ایک جوان نریندرکمارکی موت پر بغیرثبوت کے دعوی ٰ پیش کرنے لگے کہ پاکستان سرحد پرچھیڑچھاڑ کررہاہے۔ جسے پاکستان نے مسترد کیا۔ 2019کے الیکشن میں بھارتی حکومت اپنے میڈیا کے دباؤ میں ہے اس نے اسی دباؤکے تحت پاکستان کے ساتھ امن مذاکرت کی پیشکش مسترد کی۔
انڈیانے اس بات میں بہتری کیوں سمجھی کہ مذاکرات نہ کئے جائیں؟ بھارت نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان لائن آف کنٹرول پر سیزفائرکی خلاف ورزی کررہاہے اور بھارت کی جانب سے پاکستان پر بھارت کی جانب سے الزامات لگاکر صورتحال برابرکرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بھارت کادعویٰ ہے کہ پاکستان اس کے دشمنوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرتاہے،یہ الزام بھی لگایاگیاہے کہ پاکستان نے کلبھوشن یادیوکو غیرقانونی حراست میں رکھاہواہے۔
دوہمسایہ ملکوں کے درمیان اتنی زیادہ کشیدگی کی صورتحال میں کیا یہ زیادہ ضروری نہیں تھا کہ ایک فورم قائم کیا جائے جہاں دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف شکایات کاحل کرسکیں؟ ایک غیرجانبدارثالث کاکردارکیا اقوام متحدہ ادانہیں کرسکتاتھاکہ دونوں ممالک کوشکایات کے ازالے کے لئے ایک دوسرے کے سامنے لابٹھایاجائے۔
بھارت کی جانب سے حوصلہ شکن جواب پر پاکستان میں بھی اپوزیشن پارٹیاں اگرچہ بھارتی تکبرکی مذمت کررہی ہیں تاہم وہ پی ٹی آئی کی حکومت پربھی الزام لگارہی ہیں اس نے جس انداز میں بھارت کی جانب دوستی کاہاتھ بڑھایااس سے پاکستان کی سبکی ہوئی ہے۔ بھارتی میڈیا پاکستان کی اس حکمت عملی کو ‘‘بھیک’’قراردے رہاہے۔ جوخاص طورپربہت پریشان کن ہے۔ ذاتی اناؤں کوپس پشت ڈال کرامن مذاکرات کی پیش کش کرنے کے لئے بہت بڑاحوصلہ چاہئے۔ مزیدکتنے نریندرکمار اور ایان(ایک آٹھ سالہ پاکستانی بچہ جوکنٹرول لائن پربھارتی افواج کی بربریت کانشانہ بن گیا)کے خون سے دشمنی کی پیاس بجھتی رہے گی؟
اگرکمزوری مستقبل کی تباہی سے جانوں کومحفوظ کرتی ہے توپھرکمزوری ہی بہترہے۔ اگراختلاف ختم کرنے کے لئے پل کاکرداربھیک ہے تو بھیک کوہی معصوم زندگیاں بچانے کاذریعہ سمجھ لیا جائے۔ ناقابل اختتام جنگ کاایندھن معصوم زندگیوں کونہیں بناناچاہئے۔
تاریخ کی طرف دیکھیں توہم صرف ان اختلافات پربات کرتے ہیں جوتقسیم کاباعث بنتے ہیں۔ ہم اس رجحان کی پیروی میں نظرآتے ہیں جب نوآبادیاتی دورمیں اپنے حقوق کے لئے کھڑے نظرآتے ہیں۔ اگرہمارے اسلاف اس دورمیں حق کے لئے کھڑے ہوسکتے ہیں توہم آج کیوں نہیں؟ یہ اپنے اظہار اور رابطوں کاوقت ہے۔