جنوں کی واپسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاملہ حیات
ہم عجب انداز میں کام کرت ہیں،ایک ایسامعاشرہ جوروشن خیالی اور ترقی کی طرف جانے کی امیدکرتاہے کچھ توپی ٹی آئی واضح طورپراسے حاصل کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ پاکستان ایئرفورس کی قائم کردہ ایک پبلک ریسرچ یونیورسٹی ایئریونیورسٹی میں اس سال اپریل میں ایک سیمینار منعقد ہواجس میں معاشرے میں جنوں اور جادوکے کردار پربحث کی گئی۔ اس ایونٹ کی بڑے پیمانے پرتشہیرکی گئی جس کی صدارت روحانی کارڈیالوجسٹ راجہ ضیاالحق نے کی جوخودکواپنے سوشل پیج پر “FUNdamentalist” لکھتے ہیں۔ یہ بات انتہائی یقینی ہے کہ ہمارامعاشرہ انتہائی تذبذب اورفکری بدنظمی کامعاشرہ بن رہاہے۔ مذکورہ سیمینار جنوں کے بارے میں پہلا سیمنارنہیں تھا۔ اس کے علاوہ بھی سالہاسال تک جنوں پرپروگرام ہوئے۔ ان میں سے کچھ ضیاالحق کے دورکے آس پاس ہوئےجنہوں نے حیران کن طورپر اسلامی سائنس متعارف کرانے کی کوشش کی اور ایسے خیالات کوترویج دی جن کے تحت توانائی بحران جنوں کی وجہ سے ہوتاہے اوروہ ہماراتوانائی کی کمی کامسئلہ حل کرسکتے ہیں۔ تیس سال بعداس بات کاپتہ نہیں چلاکہ ان سیانے لوگوں نے حسب توقع کامیابی حاصل کی یانہیں۔ اگرکامیابی حاصل ہوئی تو ہمارے بہت سے مسائل اب تک حل ہوجانے چاہئیں تھے۔ شایدعمران خان کی تیسری اہلیہ جن کے بارے میں رپورٹس ہیں کہ فوری نوعیت کے معاملات میں مددکے لئے بلاسکتی ہیں۔ اس قسم کی مضحکہ خیزباتیں ہوتی ہیں کہ ملک بھرمیں لوگوں سے عطیات سے دیامربھاشاڈیم اوردیگرمنصوبوں کی انتہائی تیزرفتار تعمیرممکن بنانے کے لئے جنوں کااستعمال کیا جائے گا۔ اصل میں جنوں اور دیگرقوتوں کی پاکستان بھرمیں مختلف مقامات پرواپسی اور بوتل سے جن کی رہائی کاتصور واپس آگیاہے۔ مذہب کوسیاست کے ساتھ ملانے کی کوشش کامسئلہ ہمیشہ رہاہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس میں مذہب اورسائنس دونوں شامل ہیں۔ ایک واضح مقصد کے لئے ہمیں فوری طورپر اپنے معاشرے میں استدلال اور منطقی سوچ کورواج دینے کی فوری ضرورت ہے۔ افسوس ہم نے اس میں توڑپھوڑکردی ہے۔ ہماری بڑی یونیورسٹیوں میں سائنسی ریسرچ کامعیارانتہائی خراب اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سائنس کے ٹھوس شواہدسے قائل ہونے میں تذبذب کاشکارہیں۔ جادوکی حیران کن دنیا تاہم بہت مضبوط ہے۔ بہت سے بااثرلوگوں کااس کے زیراثرہونےکاعام لوگوں کے لئے اس کی اہمیت بڑھاتاہے اور انہیں اس کے قریب لاتاہے۔ ضیاالحق کے دور کے بعد سے زیادہ سنجیدہ ریسرچ میں مصروف سائنسدانوں نے فزکس اوردوسری سائنسوں کو ذاتی عقائد سے دورکرنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے کچھ کی جانب سے سامنے لائی گئی سخت اور جرات مندانہ تنقید کے باوجوداپنی کوششوں میں کچھ کامیابی ملی۔ حتیٰ کہ سکول کی سطح پربھی طلبہ بنیادی سائنس کوقبول کرنے میں تذبذب کاشکارہوتے ہیں۔ اس طرح کے بڑھتے واقعات میں استاد اورشاگرد مشترکہ طورپر اس خیال کے حامی ہیں کہ سارے مذہبی اورسائنسی عقائد کو ملادیاجائے۔ ان کے ان خیالات میں بہت سے نقائص ہیں۔ ابھی تک ہمیں یہی لگتاہے کہ یہ نظریات صرف اس صورت میں قابل قبول ہیں جب سائنس اور اس کے نظریات کوقبول کیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہائی سکولوں اور کالجوں حتیٰ کہ یونیورسٹیوں میں بھی بے شمارطالب علم ایسی کیفیت میں ہی ہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم پاکستان کے مستقبل کو قبول کریں،ایک ایسا پاکستان جس کا پی ٹی آئی نے ہم سے وعدہ کیا۔ وہ پاکستان حقائق کے اوپرمبنی ہوناچاہئے۔ جیساکہ بھارت میں ہےجہاں عقائد اور سائنسی حقائق کے درمیان وقفہ کرنے سے انکار ہے جس سے غیریقینی پیدانہیں ہوتی۔ یہ تذبذب ہمیں آگے بڑھنے سے روکتا اور معزز ٹی وی میزبانوں کوجواز مہیاکرتاہے کہ وہ ایسے غلط نظریات کی ترویج کریں جیسا کہ کچھ سال قبل ایک نے نوجوانوں کا ایک ایسا گروپ سامنے لاپیش کیاجواس بات پرمصرتھے کہ انہوں نے پانی سے چلنے والی گاڑی بنالی ہے۔ بڑے بڑے چینلز نے اس خبرکوبڑے جوش وخروش سے کوریج دی۔ اس بات کاکوئی شعورنہیں کہ ایک ایسی بات جواچھی معلوم ہوتی ہواصل میں غلط ہے۔ پانی سےچلنے والی کارکی کہانی ہمیشہ نقائص سے بھرپوربات کاذکرہے۔ ہم میں سے کچھ نے سائنس کی بنیادوں کونہیں سمجھا بجائے اس کے ہم نے اسے معجزہ اورجادوقراردیا۔ یہاں تک کہ لاہورجیسے شہرمیں بھی بھی بہت سے ایسے سنٹرہیں جہاں آرٹ کلاسز کااہتمام کرتے ہیں اورانہیں بے شمارلوگ پیسے دے کر وہاں جاتے ہیں۔ جہاں تاش کے پتوں،ہاتھوں کی لکیروں،چائے کے پتوں کودیکھ کرقسمت کاحال بتایاجاتاہے۔ ان میں تمام قسم کے دوسرے نظریات بھی ہوتے ہیں جوقصے کہانیوں پرمبنی ہوتے ہیں۔ ہم ایسی ذہنیت کی راہ ہموارکرنے میں ناکام ہیں جوسائنسزاورآرٹس میں آزادریسرچ کورواج دے ۔ ہماری بہت سے اہم شخصیات بھی اہم فیصلوں کے وقت اپنے روحانی پیشواؤں کی طرف رجوع کرتی ہے۔ عمران خان اپنی روحانی پیشواسے شادی کرکے ایسے معاملات کو ایک قدم آگے لے گئے ہیں۔ یہ معاملہ آخری وقت کے مشورے یا گھرسے باہر کے دورے پراطلاعات کے تبادلے کو اورآسان کرے گا۔ جوچیز سب سے خطرناک ہے وہ یہ ہے کہ ایسے عقائدمیں کوئی کمی نہیں آئے گی جن میں جادوکاذکرہو۔ سیمینارجس میں یہ معاملات زیربحث آئے سینکڑوں طلبہ اور بہت سے ماہرین تعلیم شریک تھے جنہوں نے مقررین کے خیالات سنے۔ یہ بات جاننے کی بھی کوشش نہ کی گئی اورنہ سوال اٹھایاگیا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ مختلف مقامات پر حتیٰ کہ بڑے شہریوں میں بھی مختلف دیواروں پرنام نہاد معالجین کے اشتہارلکھے نظرآتے ہیں کہ ہم تمام جاندارمخلوقات انسان،جانوریاجنوں کاعلاج کرسکتے ہیں۔ یہ بات صریحاً بہت حیران کن ہوگی کہ ہم چندالفاظ اداکرکے ایسی مخلوق سے کام لے لیں جوغیرمرئی ہے۔ یقینی طورپرکام توبہت سے ہوتے ہیں۔ ڈیمز کی تعمیر کے علاوہ ہمیں سڑکوں،سکولوں،درختوں،ہسپتالوں،