پاک بھارت مزاکرات کا ڈیڈ لاک
مکالمہ
سلمان عابد
salmanabidpk@gmail.com
پاکستان اور بھارت میں موجودوہ لوگ جو دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات کے حامی ہیں ان کے لیے دوستی ، امن سے جڑی اچھی خبروں سے زیادہ منفی پہلو زیادہ بالادست نظر آتے ہیں ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کے حوالے سے کافی سیاسی پیچیدگیاں ہیں او رمسائل سمیت بہتر تعلقات کا فوری امکان بھی غالب نظر نہیں آتا ۔ لیکن اس کے باوجود امن سے جڑے لوگ اس خواہش کی بنیاد پر امیدکے دیے سجاتے ہیں کہ دونوں ملکوں میں موجود تناو، بگاڑ، دشمنی یا بداعتمادی مستقل نہیں رہے گی ، مسئلہ کا حل نکلے گا اور دونوں ملکوں کو مزاکرات کی سطح پر کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر نئے بہتری کے راستے تلاش کرنے ہونگے ۔عمران خان نے جیت کے بعد جو پہلی تقریر کی اس میں پاک بھارت تناظر میں ایک قدم آگے بڑھ کر بھارتی قیادت کو یہ پیغام دیا کہ اگر وہ مسائل کے حل میں ایک قدم آگے بڑھائیں گے تو ہم دو قدم آگے بڑھیں گے ۔اس کے بعد قوم سے خطاب میں بھی وزیر اعظم نے بھارت سے بہتر تعلقات او رمزاکرات کی بحالی پر زور دیا ۔خود بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے عمران خان کو وزیر اعظم بننے پر نہ صرف ٹیلی فونک بلکہ تحریری مبارکباد بھی دی ۔ وزیر اعظم نے اس تحریری خط کی بنیاد پر بھارت کے وزیر اعظم کو ایک بار پھر مزاکرات کی دعوت دی۔جسے ابتدائی سطح پر بھارت نے وزیر خارجہ کی سطح پر ملاقات پر اتفاق کیا، جو جمود کو ٹوٹنے کا سبب بنا ، لیکن پھر ملاقات کی منسوخی سے جو امید کا دیا جلا تھا اسے دوبارہ بجھا دیا گیا، جو بڑا دھچکہ ہے ۔وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے مزاکرات کی دعوت کو مسترد کرنا اور ان کے بارے میں منفی الفاظ کے استعمال کا یقینی طور پر پاکستان میں شدید ردعمل ہونا تھا ۔محض مسئلہ مزاکرات کی دعوت کو مسترد کرنے تک محدود نہیں رہا بلکہ بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن روات نے ایک قدم آگے بڑھ کر پاکستان کو بڑا سبق سکھانے کے لیے سرجیکل اسٹرائک کی دھمکی بھی دے ڈالی۔بھارتی میڈیا جو پہلے ہی پاکستان مخالفت میں پیش پیش رہتا ہے اس نے بھی اس موقع پر آگ کو مزید بھڑکایا ۔حیرت اس بات پر تھی کہ مزاکرات اور تعلقات کی بہتری کی دعوت پر بھارت کا جارحانہ او رمخالفانہ رویہ کیا ایسی ریاست کا ہوسکتا ہے جو ہمسائے سے تنازعات کو ختم کرکے تعلقات کو بہتر بنانا چاہتی ہے ۔وزیر اعظم عمران خان کے ٹویٹ پر بھی ایک واویلا مچایا گیا۔ یہ واویلامحض بھارت تک محدود نہیں تھا ، بلکہ ہمارے اندر سے بھی حکومتی مخالفین اور اہل دانش کے ایک طبقہ نے وزیر اعظم کو سفارتی ، سیاسی اور ڈپلومیسی کے آداب کے منافی قرار دیا ۔ وزیر اعظم عمران خان کا ٹویٹ تین نکات پر مشتمل تھا۔ اول مزاکرات سے انکاری پر اسے بھارتی قیادت کا منفی اور متکبرانہ رویہ قرار دیا گیا، دوئم بقول وزیر اعظم عمران خان کے انہوںنے پوری زندگی چھوٹے لوگوں کو بڑے عہدوں پر قابض ہوتے دیکھا ہے ، سوئم ایسے لوگ بنیادی طور پر بصیرت سے عاری اور دوراندیشی سے محروم ہوتے ہیں ۔یقینی طور پر وزیر اعظم کا یہ ٹویٹ بھارت کے ردعمل کا نتیجہ تھا ۔
مسئلہ بنیادی طور پر محض وزیر اعظم عمران خان کا ہی نہیں بلکہ ماضی میں بھی نواز شریف سمیت جس بھی حکمران نے بھارت سے تعلقات کی بہتری کی بات کی تو اسے مزاکرات کی بجائے الزامات اور کردارکشی کا سخت سامنا کرنا پڑا۔ جو لوگ وزیر اعظم عمران خان کے بیان کو سفارتی اور ڈپلومیسی کے خلاف سمجھتے ہیں یا جن کے بقول اس بیان سے مزاکرات کا دروازہ بند ہوگیا ہے۔ ان کو سنجیدگی سے یہ سوچنا چاہیے کہ یہ جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس کو کس نے پیدا کیا۔کیا ڈپلومیسی کے محاذ پر مزاکرات کا دروازہ بند رکھا جاتا ہے او رکیا تعلقات کے بگاڑ میں بہتر ی پیدا کرنے کے لیے ملکوں سے تعلقات مثبت انداز میں جوڑے جاتے ہیں یا توڑے جاتے ہیں ۔ تعلقات کی بہتری سیاسی تنہائی میںنہیں ہوتی ۔پہلی او ربنیادی شرط میز پر بیٹھنا ہوتا ہے ۔کاش اہل دانش بھارت کے طرز عمل پر بھی خاموشی کی چپ توڑیں او رکچھ بھارتی قیادت کا بھی ماتم کریں کہ وہ کیاکچھ کررہا ہے ۔یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ جس طرح سے بھارت کا مزاکرات کے تناظر میں ایجنڈا ہے یا ہمارے بارے میں اس کے شدید تحفظات ہیں تو کچھ ایسی ہی صورتحال خودہماری بھی ہے ۔ہمیں بھی بھارت سے بہت سے معاملات میں بہت سی شکایات ہیں ۔ ان شکایات او رمسائل کا ازالہ سیاسی بیٹھک سی ہی ممکن ہے ، جس سے بھارت مسلسل انکاری ہے ۔ ہمارے کچھ اہل دانش پاکستان کی فوج کو صورتحال کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں او ران کے بقول بھارت سے تعلقات کے بگاڑ میں بنیادی کردار ہماری اسٹیبلیشمنٹ کا ہے ۔ یہ وہی بیانیہ ہے جو بھارت نے ہمارے خلاف اپنے ملک میں عالمی دنیا میں اختیار کیا ہوا ہے ۔حالانکہ میں یہ بات پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ پاکستان کی فوج بھی بھارت سے بہتر تعلقات کی حامی ہے او ر اس کو بھی اس بات کا اندازہ ہے کہ دونوں ممالک میں تعلقات کی بہتری ہی خطہ میں امن ، سلامتی اور خوشحالی کی ضمانت بن سکتا ہے ۔
وزیر اعظم عمران خان نے جو بھار ت کومزاکرات کی دعوت دی وہ یقینی طو رپر اسٹیبلیشمنٹ کی رضامندی سے ہی دی ہوگی ،کیونکہ اس وقت دونوں فریقین سیاسی اور عسکری قیادت ایک ہی پیچ پر نظر آتے ہیں ۔ دوئم بھارت کے آرمی چیف کی دھمکی کے باوجود پاکستان کی فوجی قیادت نے ایک بار پھر صاف پیغام دیا کہ ہم اگرچہ جنگ لڑنے کی بھرپور صلاحیت کو رکھتے ہیں ، لیکن اس کے باوجود ہم امن کا ہی راستہ اختیار کریں گے۔ان حالیہ دنوں میں جو پاک بھارت تناو ابھر ا ہے اس کو پیدا کرنے میں خود بھارت کی سیاسی اور فوجی قیادت سمیت وہاںکا میڈیا پیش پیش ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے جو مزاکرات کی دعوت دی اس میں دہشت گردی جیسے اہم مسئلہ کو بھی ایجنڈے کا حصہ بنانے کی پیش کش کی ، جسے یکسر مسترد کردیا گیا۔
ہمارے وہ جمہوری دوست جو بھارت کی سیاست میں اسٹیبلیشمنٹ کے کردار کو نہیں دیکھتے ان کو زرا بھارتی آرمی چیف کے بیان کی براہ راست کیونکر ضرورت پڑی او رجس تواتر سے وہ دھمکیاں دے رہے ہیں اس کے پیچھے بھارت کی اپنی سیاست ہے یا اس میں ان کی اپنی اسٹیبلیشمنٹ کا بھی کوئی ایجنڈا چھپا ہوا ہے جو تعلقات میں بگاڑ پیدا کرکے حالیہ سٹیٹس کو برقرار رکھنا چاہتا ہے ۔اصل میں ہمیں بھارت کی داخلی سیاست کو سمجھنا ہوگا کہ وہ اس وقت پاکستان کے تناظر میں کہاں کھڑی ہے ۔ اول بھارت میں اگلے برس عام انتخابات ہیں ،وہاں ہمیشہ سے انتخابی مہم میں پاکستان مخالف ایجنڈا یا دشمنی پر مبنی چورن بکتا ہے ۔بی جے پی او ربالخصوص بھارت کی سیاست کو ہندواتہ کی سیاست میں بدلنے والے نریندر مودی انتخابات سے قبل مزاکرات کا کارڈ کھیل کر پاکستان دشمنی پر مبنی ووٹ بینک کو خراب نہیں کرنا چاہتے ۔ دوئم آج کل وہاں مودی حکومت کو اپنی کارکردگی او ربالخصوص کرپشن جیسے الزامات کا سامنا ہے ۔ مودی سرکار کی کوشش ہے کہ اس کرپشن کے ایجنڈے کو طاقت ملنے کی بجائے پاکستان دشمنی کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جائے ۔سوئم کشمیر کی حالیہ صورتحال سے خود بھارت بہت پریشان ہے ۔ کشمیر کی یہ جدوجہد تیسری نسل میں منتقل ہوگئی ہے ۔فاورق عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی بھارتی قیادت کو کشمیر کے تناظر میں طاقت کے انداز کی بجائے سیاسی انداز اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے ۔بھارت کو اس بات کا احساس ہے کہ مزاکرات کے تناظر میں کشمیر کا ایجنڈا بھی ہوگا ۔ اس لیے وہ اس سے فرار اختیار کرنا چاہتا ہے اور اسی کے ساتھ کو عالمی دنیا کو سٹیٹس کو برقرار رکھ کریہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اعتماد سازی کی بحالی میں پاکستان او راس کی اسٹیبلیشمنٹ رکاوٹ ہے ۔سیاسی ،سفارتی اور ڈپلومیسی کے تناظر میں حالیہ حکمت عملی سے پاکستان نے عالمی دنیا کو یہ باور کروایا ہے کہ اس وقت ہم نے ڈیڈ لاک نہیں پیدا کیا بلکہ یہ بھارت کا پیدا کردہ ہے ۔ امریکہ سمیت عالمی قوتیں جو پاک بھارت مزاکرات کی حامی ہیں ان کو بھی سمجھنا چاہیے کہ بھارت کا سخت گیر رویہ ہی ڈیڈ لاک کو پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے ۔ اس لیے وہ پاکستان پر ضرور دباو ڈالیں ،لیکن بھارت پر بھی اس کے سخت گیر رویہ پر نظر رکھیں ۔بھارت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ مزاکرات اگر ہونگے تو وہ محض اس کی شرائط پر نہیں ہونگے اس میں پاکستا ن کا ایجنڈا بھی شامل ہوگا۔مزاکرات محض پاکستان کی کمزوری نہیں خود بھارت اور خطہ کی سیاست کے لیے بھی ضروری ہے اور بھار ت ماضی کی تلخیوں سے باہر نکل کر آگے بڑھنے کا ہی راستہ اختیار کرنا ہوگا، جو صرف اور صرف مزاکرات سے ہی ممکن ہے ۔
کالم نگار سے اس ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے
salmanabidpk@gmail.com