Breaking News
Home / Columns / پیپلز پارٹی کا دوبارہ جنم؟

پیپلز پارٹی کا دوبارہ جنم؟

zamضمیر آفاقی
عوام کی آواز
پیپلز پارٹی کا دوبارہ جنم؟
بلاول زرداری پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ ہیں۔ وہ 21 ستمبر، 1988ءکو پیدا ہوئے۔ بلاول سابق وزیر اعظم پاکستان محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور موجودہ شریک چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین آصف علی زرداری کے صاحبزادئے ہیں۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے ہیں۔ انہوں نے2012میں سیاست میں قدم رکھا۔ 2015 میں آصف علی زرداری نے پیپلزپارٹی کے اہم اختیارات آپ کو سونپ دئیے اپنی والدہ کے دوسرے دور حکومت کے دوران انہوں نے کراچی گرائمر اسکول، کراچی سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے فوربلز انٹرنیشنل اسکول، اسلام آباد سے بھی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں جب وہ دبئی منتقل ہوئے تو انہوں نے اپنی تعلیم راشد پبلک سکول، دبئی میں جاری رکھی۔ جہاں وہ اسٹوڈنٹ کونسل کے نائب چیئرمین تھے۔ راشد پبلک سکول، دبئی کے شہزادوں اور امراء کے لیے خاص سکول ہے۔ وہ تائیکوانڈو میں بلیک بیلٹ بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے کرائسٹ چرچ سکول، جامعہ آکسفورڈ سے بھی تعلیم حاصل کی ۔ 2008ء میں وہاں ا±ن کا پہلا تعلیمی سال تھا۔ اسی جامعہ میں ان کے نانا اور والدہ نے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔بلاول، اپنی والدہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 30 دسمبر، 2007ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ نامزد ہوئے۔ لیکن چونکہ ابھی تعلیم مکمل نہیں ہوئی تھی لہذا ان کے والد آصف علی زرداری پارٹی کے شریک سربراہ رہے جو جماعت کو چلا رہے ہیں۔ والدہ کی شہادت کے بعد ان کا نام بلاول علی زرداری سے تبدیل کر کے بلاول بھٹو زرداری کر دیا گیا تھا کیونکہ پیپلز پارٹی اپنے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت کے باعث پانے والی شہرت کو نہیں کھونا چاہتی تھی اور ”بھٹو عنصر‘ کا استعمال ہی بلاول کے نام کی تبدیلی کا باعث بنا۔ ان کی پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے عہدے پر تعیناتی کو ملک کے کچھ سیاسی حلقوں نے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا کیونکہ ملک کی سب سے بڑی جمہوری قوت ہونے کے ناطے پیپلز پارٹی کو اپنے سربراہ کا انتخاب جمہوری طریقے سے کرنا چاہیے تھا جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں اوراس جماعت کے فلسفے کو سمجھنے اور جاننے والوں نے محبت اور عقیدت کا اظہار کیا۔آکسفورڈ میں جدید تاریخ، برطانوی تاریخ اور جنرل تاریخ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بلاول بھٹو جون 2010 میں وطن واپس آئے اور اس وقت پارٹی کو فعال کرنے میںدن رات مصروف ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی ایک ملک گیر جماعت ہے جس کی جڑیں ابھی تک عوام میں ہیں،گذشتہ انتخابات میں پنجاب میں اس جماعت کی شکست سے تجزیہ نگاروں نے اندازئے لگانے شروع کر دیئے تھے کہ اس جماعت کا اب چل چلاو ہے اور آئندہ شائد ہی کبھی یہ جماعت قومی دھارئے میں شامل ہو سکے اس کے علاوہ پاکستانی پرنٹ اور الیٹرونکس میڈیا میں بھی اس جماعت کے حوالے سے منفی پراپیگنڈہ کیا گیا، جبکہ اس جماعت کے شریک چیئر میں آصف علی زرداری تو میڈیا کا آسان ہدف رہے۔ ان کے دور حکومت میں عدلیہ انتظامیہ اور میڈیا کے ٹرائیکا نے نہ ہی انہیں سکھ کا سانس لینے دیا اور نہ ہی یکسوئی سے کام کرنے دیا گیا۔ عملاً یہ صورت حال تھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے آدھے سے زیادہ وزیر عدالتوں کے چکر لگاتے رہے جبکہ ان کے وزراعظم کو ناہل قرار دیا جاتا رہا، کردار کشی کی مہم میں حصہ بقدر جثہ جس سے ہو سکا اس نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ۔اس کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں سندھ میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی علاوہ ازیں اس جماعت کی جانب سے انسانی حقوق وہ بچے ہوں خواتیں یا دیگر سماجی مسائل پر جتنی قانون سازی ہوئی کسی اور کے دور حکومت میں نہیں ہوئی یہ واحد جماعت ہے جو باقائدہ ایک فلسفہ رکھتی ہے انسانی عزت و تکریم اور اس کے حقوق کی بات ہی نہین کرتی بلکہ انسانی حقوق کے حوالے سے جتنی قانون سازی اس جماعت کے ادوار میں ہوئی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ موجودہ دور حکومت میں بھی سندھ حکومت نے کم عمری کی شادیوں کے خلاف بل پاس کیا اور جبری مذہب کی تبدیلی کا کارنامہ بھی اسی حکومت کے سر جاتا ہے۔ اس کے باوجود یہ جماعت معتوب ہی ٹھرتی ہے ۔کہا یہ جانے لگا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا اب کوئی مستقبل نہیں ہے اس بات کو میڈیا کے زریعے اتنا پھیلایا گیا جس کا مقصد پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکن کو مایوس کرنا تھا لیکن کیا ایسا ہو پایا ؟جنرل ضیاءکے ظلم و ستم کا کالا دور اس جماعت کو ختم نہ کر سکا اور نہ ہی اس کے کارکنوں کے حوصلے پست کر سکا۔ جن جماعتوں کی جڑیں عوام میں ہوں انہیں اتنی آسانی سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ بلاول بھٹو کی پرفامنس کافی بہتر جارہی وہ ابھی نواجون ہے مگر نو آموز نہیں اس کی سیاسی تربیت کے جوہر نمایاں ہونے شروع ہوگئے ہیں لیکن ابھی اسے بہت کچھ کرنا ہے۔
پیپلز پارٹی آج ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں اسے نئے تقاضوں کے مطابق نئے راستے تلاش کرنے ہیں اور پرانی رکاوٹیں دور کرنی ہیں۔ اس جماعت کے لیے رہنماو¿ں کی قربانیوں کی بنیاد پر مزید ووٹ حاصل کرنا اب مشکل ہے۔ پارٹی نے لاہور میں انچاسویں یوم تاسیسں منایا جسے پارٹی کا دوسرا جنم بھی کہا جارہا ہے ۔اپنی مقبول رہنما بےنظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی اور حکومت بنائی۔ اس نے قومی اسمبلی میں پنجاب سے باسٹھ نشستیں جیتیں تھیں۔ 2013 میں تقریباً اس کا صفایا ہوا اور صرف تین نشستیں ہاتھ آ سکیں۔ دو ہزار آٹھ کے عام انتخابات میں پنجاب اسمبلی میں 106 نشتوں کے مقابلے میں 2013 میں اسے محض آٹھ نشستیں مل سکیں۔ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات تک اسے اپنی ’لائین اینڈ لنتھ‘ درست کرنی ہے ورنہ وہ میچ بھی ہار جائے گی۔
یہ لاہور ہی تھا جہاں پیپلز پارٹی پیدا ہوئی تھی۔ پاکستان میں اقتدار کا ممبع سمجھے جانے والے پنجاب کے اسی دل میں پیپلز پارٹی کے بارے میں عام رائے کافی جارحانہ ہے۔ سڑکوں پر عام لوگوں سے بات کریں تو وہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو پہلے روٹی، کپڑا اور مکان کا وعدہ پورا کرنا ہوگا، کوئی کہتا ہے وہی کریں جو پنجاب حکومت کر رہی ہے اور کسی نے کہا کہ مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اور نئے روزگار کے مواقع آج بھی لوگوں کی زندگیاں اجیرن کیے ہوئے ہیں۔ ’دہشت گردی ہے، ماحولیات کے مسائل ہیں اور ہاں بے روزگاری اور انتہا پنسدی ہے۔ یہ چیلنج اس جماعت کی تیسری پیڑھی نے اب حل کرنے ہیں۔‘ جیالوں کو حوصلہ دینا ہے جماعت کی تربیت دوبارہ سے کرنی ہے اور اس کو منظم کرنا ہے۔ وہ اس وقت ہی ہوسکتا ہے جب پارٹی وہیں جائے جہاں سے شروع ہوئی تھی یعنی بائیں بازو کی سینٹر پارٹی بنے۔ اسے عوام، کارکنوں اور دہقان کے لیے کام کرنا ہے پھر ہی پنجاب میں کامیابی حاصل ہوگی۔‘
سابق وفاقی وزیر اطلاعات قمر الزماں کائرہ کو مرکزی پنجاب میں یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ تو اب عوام، کارکنوں اور کسانوں کے لیے پیپلز پارٹی کا پیغام کیا ہے؟ قمر الزماں کائرہ کہتے ہیں کہ بلاول خود نکلے ہیں ان کارکنوں کو منانے کے لیے۔’ان (کارکنوں) کا مطالبہ تھا کہ عہدے کارکنوں کو دیے جائیں وہ انھوں نے دے دیے ہیں۔ اب چیئرمین خود مشاورتی عمل کے تحت نچلی تنظیموں کو مکمل کرنے جا رہے ہیں۔ اس سارے عمل میں کارکنوں کو ساتھ ملایا جا رہا ہے۔ پالیسی سازی میں مشاورت ہو رہی ہے اور یہ سات روز کی تقریبات اسے سلسے کی ایک کڑی ہے۔‘بلاول بھٹو میں وہ کرزمہ ہے جو ذولفقار علی بھٹو شہید میں تھا لیکن بلاول کو اپنے پتے بڑی عقلمندی سے کھیلنے ہوں گے ،ساتھ ہی جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنی پالیساں ترتیب دینی ہوں گی، ان کی میڈیا ٹیم کو بھی اپنی اصلاح کرنی ہوگی ۔

About Daily City Press

Check Also

پلاسٹک موت کی گھنٹی

عظمی زبیر پلاسٹک موت کی گھنٹی ! پلاسٹک کا طوفان، پنجاب کی بقا کا سوال …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *