Breaking News
Home / Blog / ”سیف سٹی پراجیکٹ“شہری محفوظ؟

”سیف سٹی پراجیکٹ“شہری محفوظ؟

ضمیر آفاقی
عوام کی آواز
شہروں اور ان میں بسنے والوں کی زندگیوں کو محفوظ و مامون کیسے بنایا جائے یہی وہ سوال ہے جو آج کل حکومتوں مملکتوں اور معاشروں کے لئے سوہان روح بنا ہوا ہے ترقی یافتہ ممالک نے مختلف تجربات اس ضمن میں کئے مگر انسان کو ”کینڈے“ میں رکھنے میں ناکام رہے پولیس ، خفیہ تحقیقاتی ادارئے وجود میں لائے گئے جن سے کچھ کامیابی ملی مگر جرائم پیشہ افراد کے جھوٹ پکڑنے کا ان کا پاس صرف ایک ہی زریعہ یا آلہ تھا ”تشدد“ جسے انسانی حقوق کی تنظیمیں ظالمانہ رویہ قرار دئے کر آواز اٹھاتی رہیں جس کے نتیجے میں تحقیق اور جستجو میں مہارتیں حاصل کی گئیں مگر خاطر خواہ کامیابی نصیب نہ ہو سکی ۔
شہریوں کو جرائم پیشہ ،طاقت وں اور ظالموں کے ظلم اور ریاستی اداروں کی چیرہ دستیوں سے کیسے محفوط رکھا جائے اور یہ بھی کہ خود شہریوں کو قانون سے بالا تر ہونے اور خلاف ورزی کرنے سے کیسے روکا جائے جیسے سوالوں کے جواب اب مشکل نہیں رہے کیونکہ سائنسی ایجادات نے جہاں انسان کے لیئے دیگر بہت ساری آسانیان پیدا کی ہیں وہیں اس کی اس مشکل کا حل بھی تلاش کر لیا ہے کہ وہ گھر بیٹھے دور دراز ہونے والے واقعات کو دیکھ سکے جدید ٹیکنالوجی کا فائدہ ریاستی امور نبٹانے اور شہریوں کی نقل و حمل پر نظر رکھنے میں کافی معاون ثابت ہو رہا خصوصاً سیکورٹی پر مامور اداروں پولیس وہ دیگر ایجنسیوں کا کام بہت آسان ہو چکا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں تو جدید ٹیکنالوجی کا استعمال عرصہ دراز سے کامیابی کے ساتھ ہو رہا ہے مگر اب پاکستان بھی اس ضمن میں ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا نظر آرہا ہے ۔
سائنسی ترقی کے اس عروج نے جہاں انسان کو مریخ تک پہنچا دیا وہیں اسے انسانی افعال پر قابو پانے کی صلاحیت اور جھوٹ پکڑنے کے لئے جدید آلات فراہم کر دئے ہیں ”کیمرہ صرف دیکھ ہی نہیں رہا“ آپ کی ہر ہر حرکات و سکنات کو ریکارڈ بھی کر رہا ہے ۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے مجھے لگتا ہے مستقبل میں انسان کوئی بھی گناہ کرتے وقت ہزار بار سوچے گا کیونکہ کیمرہ آپکے ہر افعال کو ثبوت کی شکل میں پیش کر دئے گا۔
اس بات کا اندازہ ہمیں ”سیف سٹی پراجیکٹ“ یعنی محفوظ شہر میں جا کر ہوا اور وہاں بڑی بڑی سکرینوں پر لاہور کی مین شاہرائیں ،چوک چوراہوں پر چلنے والی ٹریفک کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھا اور یوں محسوس ہوا کہ لاہور ہماری مٹھی میں بند ہو چکا ہےشہر میں جو کچھ بھی حرکت ہو رہی تھی اس بڑی سکرین پر نظر آرہی تھی۔ یہ سب دیکھنے کے بعد میں حیرت کے سمندر میں ڈوب گیا اور مجھے اپنے اس خواب کی تعبیر نظر آنا شروع ہو گئی جس کا اظہار میں اپنے اکثر کالموں میں کرتا آرہا ہوں کہ انسان کو کس طرح”کینڈے“ میں اور محفوظ رکھا جاسکتا ہے؟اس کا حل جدید ٹیکنالوجی کے زریعے سامنے آیا ہے۔
شہروں اور شہریوں کو محفوظ رکھنے کے منصوبے کا آغاز اسلام آباد سے ہوا تھا اب لاہور میں بھی سیف سٹی منصوبے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ جس کے تحت پورے شہر کو کیمروں کی مسلسل نگرانی میں دیا جا رہا ہے۔ یہ کیمرے اور تربیت یافتہ اہلکار ان کیمروں کو جرائم کی روک تھام کے ساتھ ساتھ ٹریفک کا بہاو¿ برقرار رکھنے کے لیے بھی استعمال کر سکیں گے۔عوام کی سلامتی کو یقینی بنانے اور ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنے ،قانون کی خلاف ورزی کرنے اور دیگر جرائم کے خاتمے میں مدد کرنے میں معاونت کا کام سر انجام دیں گے ۔پنجاب سیف سٹیز آرڈیننس 2015 کے تحت پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی (PSCA) قائم کیا گیا ہے۔
حکومت پنجاب اس حوالے سے کافی متحرک دکھائی دیتی ہے اور وزیر اعلی پنجاب ہر روز کسی نہ کسی نئے منصوبے پر کام کرتے نظرآتے ہیں۔ سیف سٹی پراجیکٹ پنجاب کومحفوظ اور خوشحال بنانے کی جانب اہم قدم ہے، عوام کے جان ومال کے تحفظ سے بڑھ کر کوئی چیزاہم نہیں، منصوبے پرعمل درآمد کے لیے عملے کوجدید تربیت دی جا رہی ہے، سیف سٹی پراجیکٹ انتہائی اہمیت کا حامل منصوبہ ہے جب کہ ڈولفن فورس اور پولیس رسپانس یونٹ بھی منصوبے کا حصہ ہوں گے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کے مطابق لاہور کا سیف سٹی پراجیکٹ اسلام آباد منصوبے سے چار گنا بڑا ہے، آئی سی تھری پراجیکٹ بارہ ارب روپے کی لاگت سے مکمل کیا جا رہا ہے جس میں چار ارب روپے کی بچت کی گئی ہے۔قربان لائن میں آئی سی تھری پراجیکٹ کے پہلے فیز کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ یہ جنوبی ایشاءکا پہلا منصوبہ ہے جیسے چین کی کمپنی ہواوے نے تعمیر کیا۔ وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں 5 سال قبل 1500 کیمرے نصب کر کے 16 ارب روپے خرچ کئے جبکہ پنجاب حکومت 12ارب روپے سے 8 ہزار کیمرے نصب کئے جارہے ہیں۔ اس منصوبہ سے پولیس ہر جگہ پر نظر رکھ سکے گی اور جرائم کی بیج کنی میں مدد گار ثابت ہوگا۔ راولپنڈی، سرگودھا، فیصل آباد، ملتان، بہاولپور اور گوجرانوالہ میں اگلے سال کے آخر تک مزید منصوبے مکمل کر لیے جائیں گے۔وزیر اعلیٰ نے ڈی آئی جی علی عامر ملک، اکبر ناصر خان، ہوم سیکرٹری میجر (ر) اعظم سلیمان خان، چیئرمین پی اینڈ ڈی جہانزیب خان سمیت منصوبے میں کام کرنے والوں کی خدمات کو بھی سراہا۔
سیف سٹی پراجیکٹ مرحلہ وار پروگرام کے تحت جون2017ءتک پورے لاہور میں کام شروع کر دے گا۔ اس منصوبے کے مختلف امور کو پیشہ ورانہ انداز میں آگے بڑھانے میں جہاں ڈی آئی جی علی عامر ملک کی کاوشیں اور محنت شامل ہے وہیں اس منصوبے کے” تخلیق کار“ ایس ایس پی چیف آپریٹنگ آفیسر اکبر ناصر کی صلاحتیوں اور نئی سوچ نے اسے منصہ شہود پر پہنچانے میں کمال دکھایا ہے۔ ڈی آئی جی علی عامر ملک نے اس منصوبے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اگلے مالی سال کے دوران مرحلہ وارپنجاب کے پولیس سٹیشنز کو ماڈل تھانوں میں تبدیل کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی سے استفادہ کر کے تھانوں کو حقیقی معنوں میں ماڈل پولیس سٹیشنز بنایا جائے گااورتھانوں میں عوام کی داد رسی یقینی بنائی جائے گی۔ماڈل تھانوں میں پولیس کی کارکردگی مانیٹرکرنے کے لئے ڈیجیٹل مانیٹرنگ سسٹم وضع کیا جارہاہے۔ جس کے لئے آئی ٹی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں ہیں اس وقت ’سیف سٹی پراجیکٹ‘ میں ساڑھے چھ سو کے قریب سویلین آئی ٹی بیچلر ڈگری ہولڈر خواتین و مرد ماہرین خدمات سر انجام دے رہے ہیں جبکہ مذید تین سو کے قریب افراد بھرتی کئے جارہے ہیں۔ علی عامر ملک نے کہا ان کی ڈیوٹی ٹائم آٹھ گھنٹے رکھا گیا ہے تاکہ یہ لوگ اپنا کام آسانی سے سر انجام دے سکیں۔
لاہور ڈویژن میں داخلی اور خارجی راستوں کے علاوہ دو ہزار سے زائد مقامات پر دس سے بارہ ہزار کیمروں کے زریعے نگرانی کا عمل لایا جارہا ہے۔ اس منصوبے سے جہاں پولیس کی کار کردگی میں اضافہ ہوگا وہاں پنجاب پولیس کے کلچر اور ڈھانچے میں بھی بنیادی تبدیلی رونما ہو گی۔اس منصوبے کا ایک اہم فائدہ ٹریفک کے انتظام میں بہتری آئے گی جہاں ٹریفک پھسنی ہوئی ہوگی کے بارے میں مطلع کیا جائے گا اور متبادل راستوں کے بارئے آگاہی فراہم کی جائے گی سارا سسٹم مواصلات سے منسلک ہو گا اور فوراً پیغام رسانی کے زریعے مربوط کیا جائے گا اس طرح سفر کے اوقات کو کم سے کم اور ایندھن اور وقت کی بہت زیادہ اخراجات بچانے میں مدد ملے گی۔
جلسے جلسوں میں شر پسند قومی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں ان کی نشاندہی الیکٹرونکس ثبوت کے زریعے ہو گی اور ایسے افراد کو قانون اور انصاف کے کٹہرئے میں لانا آسان ہو جائے گا اس پراجیکٹ کے منصوبہ سازوں کا خیال ہے کہ مجرم بچ نہیں سکے گا اور بے گناہ کو سزا نہیں ملے گی اور جرائم میں خاطر خواہ کمی واقع ہو گی ۔ کیا واقع شہر محفوظ ہونے جارہے ہیں اس کا جواب ہاں میں دیا جاسکتا ہے۔

About Daily City Press

Check Also

وہ آیا، اس نے وہ کیا اس نے تاریخ رقم کر دی

اشعر سعید خان برطانیہ سے وہ آیا، اس نے وہ کیا اس نے تاریخ رقم …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *