Breaking News
Home / Columns / خیر اندیش آمر کی تلاش میں

خیر اندیش آمر کی تلاش میں

یاسر پیر زادہ
خیر اندیش آمر کی تلاش میں
جو کچھ موٹر وے پولیس کے ساتھ ہوا اگر وہ کسی ’’جاہل، اجڈ، انگوٹھا چھاپ، کرپٹ‘‘ سیاست دان نے کیا ہوتا تو ’’آزاد اخبار نویس‘‘ اِس ’’جعلی، مکروہ، لولی لنگڑی، بدہیئت اور پولیو زدہ جمہوریت‘‘ کو جھولیاں پھیلا کر بد دعائیں دیتے نظر آتے!
کھوکھلے دلائل دینے کا اگر کوئی مقابلہ اولمپکس میں ہو تو پاکستانی دانشور ہر سال ملک کے لئے کم از کم دس طلائی تمغے ضرور جیت کر لائیں۔ اگر کسی محب وطن کو اس میں شبہ ہے تو وہ ہمارے اِن دانشوروں کے جمہوریت کے خلاف دلائل کی ایک فہرست بنا کر اسے ارسطو کی قبر پر آویزاں کر دے، منطق کے باوا آدم کی روح تڑپ کر قبر سے باہر آجائے گی۔ ویسے ان بیچاروں کے پاس کوئی نئی دلیل تو ہے نہیں، آ جا کے وہی زنگ آلود تاویلیں ہیں جن پر روزانہ نیا لیبل چڑھا کر بیچنے کی کوشش کرتے ہیں مگر افسوس کہ پاکستانی عوام خاصے سنگ دل واقع ہوئے ہیں، جمہوریت کے خلاف مارکیٹنگ کے باوجود بازار میں اِن حضرات کی ’’خیر اندیش آمریت‘‘ کے چُورن کا اب کوئی خریدار دکھائی نہیں دیتا۔ یہ صاحبان عقل و دانش جمہوریت کے خلاف برسہا برس سے جو مقدمہ تیار کر رہے ہیں اس کا خلاصہ مبلغ دو جملوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ:
1۔ ملک میں جعلی جمہوریت ہے، دراصل یہ جمہوریت کی آڑ میں آمریت ہے، جب تک اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر نہیں پھینکا جائے گا تب تک کچھ بھی تبدیل نہیں ہو گا اور یہ حکمران اور آگے سے اُن کی اولادیں اسی طرح ہم پر مسلط رہیں گی۔
2۔ ہمیں ایک ایسے مرد آہن کی ضرورت ہے جو ایک ڈنڈے کے زور پر قوم کو سیدھا کر دے، وہ مرد آہن ایک خیر اندیش آمر کی طرح ہوگا جس کی سلطنت میں امیر و غریب ہر ایک کے لئے یکساں قانون ہو گا، وہ ہر کسی کا بے رحمانہ احتساب کرے گا، کرپشن کرنے والوں کو اُلٹا لٹکا دے گا، نالائق اور جاہل سیاست دانوں کی جگہ بین الاقوامی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ٹیکنو کریٹس کو وزارتوں کا سربراہ مقرر کر کے انہیں تین سال کے اندر ملک میں انقلاب برپا کرنے کا ٹاسک دے گا جس کے نتیجے میں پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں دندناتا ہوا گھس جائے گا اور بالآخر ہمارے تمام دلدر دور ہو جائیں گے۔
ویسے تو ہمارے دانشوروں کا تاریخ کا مطالعہ بہت وسیع ہے مگر نہ جانے کیوں جب بات جمہوریت کے خلاف ہو تو انہیں وہ تمام بحثیں بھول جاتی ہیں جو تاریخ میں جمہوریت کے حق اور مخالفت میں ہوئیں اور پھر بالآخر سینکڑوں برس پہلے دنیا نے یہ طے کر لیا کہ نظام مملکت چلانے کی لئے عوام کے ووٹ پر مبنی جمہوریت ہی مناسب ترین طریقہ کار ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ ہمارے یہ تجزیہ نگار مثالیں مغربی جمہوریت کی دیتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ وہاں جمہوریت کے خلاف یوں آئے روز مقدمہ کوئی نہیں بُنتا جیسے اِن صاحبان نے یہ کام کرنے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے۔ گویا جس منزل تک پہنچنے کا راستہ بتاتے ہیں اسی پر کانٹے بھی خود بچھاتے ہیں۔
چلئے اس بات کو یہیں چھوڑتے ہیں اور اِن کے محبوب نکتے پر آتے ہیں کہ پاکستان میں دراصل جمہوریت کی آڑ میں آمریت ہے لہٰذا یہ جعلی جمہوریت ہے۔ سبحان اللہ، کیا کہنے۔ ایک منٹ کے لئے اگر فرض کر لیا جائےکہ ایسا ہی ہے تو جناب والا آپ تو آمریت ہی کی راہ ہموار کر رہے ہیں آپ کو اس پر اعتراض کیونکر ہے کہ یہ جمہوریت کی آڑ میں آمریت ہے، بلکہ آپ کو تو خوش ہونا چاہئے کہ یہ آمریت ہے کیونکہ آپ آمریت کے ہی تو فین ہیں! یہ مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک شخص جو رمضان میں خود تو کوئی روزہ نہ رکھتا ہو مگر کسی ایسے شخص کو طعنہ دے جس کے منہ میں کلّی کرتے ہوئے پانی چلا جائے کہ ’’تم روزے کی آڑ میں روزہ خوری کر رہے ہو!‘‘ جعلی جمہوریت والی بات کی حیثیت جملے بازی سے زیادہ کچھ نہیں کیونکہ ملک میں موجود جن خرابیوں کی بنیاد پر جمہوریت کو گالیوں سے نوازا جاتا ہے وہ تمام خرابیاں امریکہ برطانیہ سمیت ہر اس ملک میں اِسی طرح موجود تھیں جیسے آج ہمارے ملک میں ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ ان ممالک نے سینکڑوں برس کی جدوجہد میں یہ فیصلہ کیا کہ ان کے ملک میں کسی طالع آزما کی کوئی گنجائش اور خیر اندیش آمر کا چُورن بیچنے والوں کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ آج نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے، ہم اٹھتے بیٹھتے روزمرہ گفتگو میں اُن ممالک کی گورننس اور قانون کی عملداری کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے، خود ہمارے تجزیہ نگار بھی انہی ممالک کو آئیڈلائز کرتے ہیں مگر ترقی کرنے کے لئے وہ طریقہ تجویز نہیں کرتے جو اِن ممالک نے اپنایا بلکہ الٹا ایک خیر اندیش آمر کا انتظار کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دلیل کو پُرکشش بنانے کے لئے ایک طعنہ موروثی سیاست کا بھی دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ اسی مکروہ جمہوریت کا تحفہ ہے اور اِس نظام میں حکمرانوں کی اولادیں ہی حکمران رہیں گے۔ اِس سے بڑا لطیفہ بھی شاید آج تک ایجاد نہیں ہوا کیونکہ اگر دنیا میں کوئی ایسا نظام ہے جس کے ذریعے موروثی سیاست سے جان چھڑائی جا سکتی ہے تو وہ جمہوریت ہی ہے، لوگ جس دن آپ کو ووٹ دینا چھوڑ دیں گے اس دن آپ کی سیاست ختم ہو جائے گی۔ دوسری طرف جس آمرانہ نظام کو ہمارے بعض دانشور چوم چاٹ کر رکھتے ہیں اس میں تو آمر سے جان چھڑانے کا کوئی طریقہ ہی موجود نہیں اس کی اولاد کی بات تو جانے ہی دیں۔ جمہوریت جیسی بھی ہو اِس میں تو پھر ہر پانچ برس بعد چھ کروڑ لوگ ووٹ ڈال کر حکمران منتخب کرتے ہیں اور تین تین مرتبہ کرتے ہیں، کیا دنیا میں کوئی ایک بھی ڈکٹیٹر ایسا گزرا ہے جو اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد دوبارہ عوام کی تائید سے اقتدار میں آیا ہو، اگر ایسے کسی ڈکٹیٹر کا نام آپ کو یاد ہو تو مجھے بھی بتائیے گا! بات وہی جملے بازی کی ہے ورنہ دلیل تو یہ ہے کہ اس وقت ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک بھی ایسی نہیں جس کے لیڈر کو اُس کی جماعت والد کی طرف سے وراثت میں ملی ہو مگر یہاں تو مقابلہ صرف فقرے بازی کا ہے تو لگے رہو منّا بھائی!
جس قسم کے خیر اندیش آمر کے ہمیں خواب دکھائے جاتے ہیں اُس کا آخری ایڈیشن اکتوبر 1999میں آیا تھا، کیا کسی کو یاد ہے کہ اس ڈکٹیٹر کی پہلی کابینہ میں کون انگوٹھا چھاپ جاہل وزیر تھا؟ ایک بھی نہیں، سب کے سب اعلیٰ تعلیم یافتہ، اپنے اپنے شعبوں کے ماہر، مگر چونکہ ڈکٹیٹر کی چھتری تلے بیٹھے تھے اس لئے نتیجہ صفر بٹا صفر۔ قانون کی حکمرانی کبھی کسی غیر قانونی اور غیر آئینی حکمران کے بطن سے جنم نہیں لے سکتی، یہ ایک سنگین مغالطہ ہے اور ہمارے بہت محترم لکھاری اس کا پرچار کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر کسی ڈکٹیٹر کو وہ یہ اختیار دینے کو تیار ہیں تو پھر قانون وہ نہیں ہوگا جو عوام کے مفاد میں ہو، قانون وہی ہوگا جو اس کی زبان سے نکلے گا۔ 2016 میں اگر یہ دانشورقوم کے لئے فرعون کے زمانے کا نظام تجویز کر رہے ہیں تو ان کی دانش کا خدا ہی حافظ ہے !curtsy jang

About Daily City Press

Check Also

پلاسٹک موت کی گھنٹی

عظمی زبیر پلاسٹک موت کی گھنٹی ! پلاسٹک کا طوفان، پنجاب کی بقا کا سوال …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *