Breaking News
Home / Blog / کیا پولیس واقع مستعد اور عوام دوست ہو گئی ہے؟

کیا پولیس واقع مستعد اور عوام دوست ہو گئی ہے؟

۔ضمیر آفاقی
عوام کی آواز
گذشتہ دنوں قومی میڈیا میں لاہور پولیس کے ڈی آئی جی آپریشن حیدر اشرف کے حوالے سے ایک خبر نظر سے گزری جس میں لاہور کے شہریوں کو خوش خبری سناتے ہوئے بتایا گیا کہ لاہور پولیس شہریوں کی جان و مال اور عزت نفس کی حفاظت کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے انہیں ہر خوف و فکر سے آزاد کرنے کا تہیہ کئے ہوئے ہے اور دہشت گردی کے خاتمے ، قابو پانے اور مجرموں پر کڑی نظر رکھنے کے لئے شہر کے تمام ہوٹلز میں’ ہوٹل آئی‘ کے نام سے سوفٹ وئیر متعارف کروایا گیا ہے جس کے تحت تمام ہوٹلز کی انتظامیہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ ہوٹل میں آنے والے ہر فرد کی انٹری ہوٹل آئی سوفٹ ویئر میں ہونی چاہیے ۔لاہور پولیس نے اس سوفٹ وئیر کے ڈیٹا بیس میں جرائم پیشہ افراد کا ڈیٹا فیڈ کیا گیاہے ۔اس سوفٹ وئیر کے تحت جیسے ہی کوئی ریکارڈ ےافتہ مجرم کوئی تخریب کار ہوٹل میں آئے گا تو پولیس کے آفس روم میں بیٹھے آپریٹر ز کے سامنے تمام معلومات آجائینگی اور پولیس فوری طور پر ہوٹل انتظامیہ کو مطلع کرکے ملزم کو گرفتار کرلے گی ۔ ہم نے ڈی آئی جی آپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف سے اس ضمن میں بات چیت کی تو انہوں نے بتایاکا لاہور پولیس کے ہوٹل آئی سوفٹ وئیر بنانے کے بعد نہ صرف ہوٹل انتظامیہ تحفظ محسو س کررہی ہے بلکہ پولیس بھی اپنا ڈیٹا آسانی سے مرتب کررہی ہے ۔ لاہور پولیس نے ےکم جنوری 2016کو ےہ سوفٹ وئیر متعارف کروایا تھا جس کے بعد سے اب تک اس سوفٹ وئیر کے استعمال سے لاہور کی تمام ڈویژنز کے ہوٹلوں میں 1لاکھ 94ہزار 104افراد کی انٹری کی گئی جن میں 7472افراد کا تعلق بیرون ملک سے تھا۔186632افراد ملکی ہیں جبکہ 453کا ریکارڈ کریمنل ریکارڈ آفس میں پایا گیا جن میں 50سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا گیا ۔
جدید ٹیکنالوجی کا یہ پروجیکٹ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کا ایک جامع منصوبہ ہے جسکے چیئرمین ڈاکٹر عمر سیف ہیں جن کے مطابق پاکستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا منصوبہ ہے۔کمانڈ، کنٹرول اینڈ کمیونیکیشن ( IC3)کے اس مربوط نظام کے تحت شہر کے اہم پبلک مقامات، سرکاری و نجی عمارتوں، مذہبی و غیر مذہبی جلوسوں، اجتماعات ، مجالس اورزیادہ جرائم والے علاقوں کی نگرانی ڈیجیٹل طریقے سے ہو سکے گے جس کا مرکزی دفتر پولیس کی نگرانی میں کام کر رہا ہے۔ اس نظام کے تحت خود کار نگرانی کے ساتھ ساتھ پولیس ایمرجنسی15پر کال کرنے والے فردکا محلِ وقوع ، موقع پربراہِ راست ویڈیو کوریج اورنزدیک ترین پولیس موبائل گاڑی کی تفصیلات ایک ہی کنٹرول روم میں دیکھی جا سکیں گی اورنزدیک ترین پولیس گاڑی فوری طور پر وقوعہ کی جگہ پہنچ سکے گی۔ ڈاکٹر عمر سیف کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کے علاوہ سریع الحرکت پولیس فورس اور قانون نافذ کرنے والی دیگر تمام ایجنسیاں اس نظام کا لازمی حصہ ہو نگی جنہیں پی آئی ٹی بی جدید آلات کے استعمال کے لئے تربیت دے رہا ہے۔
جبکہ سی سی پی او لاہور کیپٹن (ر)محمدامین وینس بھی جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ لاہور پولیس نے آپریشنز و انویسٹی گیشن ونگز میں جرائم پیشہ افراد کی مانیٹرنگ اور جرائم کے تجزیے کیلئے جدید ٹیکنالوجی سے لیس کنٹرول رومز قائم کیے ہیں جہاں 15 کی کال سے لے کر مقدمہ کی تفتیش کے تمام مراحل کو بآسانی مانیٹر کیا جاتا ہے جبکہ ان کنٹرول رومز میں کرایہ داروں کے کوائف ،جرائم پیشہ افراد کے ریکارڈ کے علاوہ چوری شدہ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا مکمل ڈیٹا بھی موجود ہے۔ان کے مطابق ان کنٹرول رومز میں تھانوں اور پولیس کی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی بھی مانیٹرنگ ہور ہی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ پولیس کی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں اپنے تھانوں کی حدود میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف کاروائیوں میں ہی مصروف ہیں۔لاہور پولیس نے شہریوں کی سہولت کیلئے شہر کے مختلف علاقوں میں فسلیٹیشن سنٹر قائم کیے ہیں جہاں شہریوں کو ڈرائیونگ لائسنس ، کریکٹر سر ٹیفکیٹ اور کاغذات کی گمشد گی کے علاوہ متعدد سہولیات فراہم کی جارہی ہے۔ جبکہ تھانہ کلچر کی تبدیلی کیلئے تھانوں میں ایڈمن افسرو ں کے پراجیکٹ کے آغاز اور فرنٹ ڈیسک کے قیام وہ اہم اقدامات ہیں جن کے حوصلہ افزا نتائج آرہے ہیں۔
پولیس کے سئنیر ترین افسران کی مندرجہ بالا گفتگو کے بعد ایک بار تو محسوس ہوتا ہے کہ واقع ہی ”تبدیلی“ آرہی ہے خدا کرئے کہ یہ مثبت ہو لیکن ایک بات جس کی کھوج میں، میں ابھی تک ناکام ہوں کہ کیا کوئی ایسا نظام بھی وضع کیا گیا ہے جس میں پولیس کے اہلکاروں کی ذہنی و نفسیاتی تربیت کا بھی اہتمام کیا گیا ہو جس کے بغیر ساری کوشش بے کار ثابت ہو سکتی ہیں؟
چلیں یہ خوش آئند بات ہے کہ ہمارئے ہاں بھی جدید ایجادات سے فائدہ اٹھانے کی طرف قدم اٹھتے دکھائی دئے رہے ہیں بلا مبالغہ اس وقت لاہور پولیس میں افسران نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں بلکہ”سوشل میڈیا“ پر ان کے فرمودات اور پوسٹ بھی یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہ پاکستان کو ایک بہتر ،پر امن اور ترقی کرتا ملک دیکھنے کے ساتھ انسانی تکریم و احترام کو بھی پنپتا دیکھنا ہی نہیں چاہتے اس کے لئے کوششیں بھی کر رہے ہیں۔
انسان کے پاس ہزار طرح کے حیلے بہانے ہیں اپنے جرائم(گناہوں) کو چھپانے کے ۔بھلا ہو سائنس و ٹیکنالوجی کا جس نے سرکش انسان کو”کینڈے“ میں رکھنے اور اس کی ہر حرکت کو ریکارڈ کرنے میں اتنی مہارت حاصل کر لی ہے کہ کہاجاسکتا ہے کہ آنے والے برسوں میں کوئی بھی شخص کوئی بھی جرم کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا، اگر کر ہی بیٹھے گا تو قانون کی پکڑ سے بچ نہیں پائے گا۔کیونکہ سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید ایجادات اس کے جرم کا پرداہ چاک کرتے ہوئے اسکے جسم کے ہر اعضاءکو اس کے خلاف گواہی بنا کر پیش کر دے گی جھوٹ بولنے اور جھوٹے الزمات لگانے کی گنجائش نہیں رہے گی۔اس وقت سب سے اہم سوال یہی ہے کہ انسان کو جانور(مجرم) بننے سے بچانے کے لئے کیا اقدامات اٹھائے جائیں کہ وہ انسانی شرف سے محروم ہو کر سفلی حالت میں نہ جا سکے جس کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا سہارہ لیا جارہاہے تا کہ انسان جرم کرتے ہوئے سو بار سوچے ۔
جن ملکوں میں سیکورٹی اہلکاروں پر ہی انحصار کیا جاتا ہے وہاں بھی اب یہ سوچ پروان چڑھتی جارہی ہے کہ سو سپاہیوں سے بہتر ہے دس سیکورٹی کیمرے لگا دیئے جائیں جو نہ رشوت لیتے ہیں اور نہ ہی وہ ظلم و تشدد کرتے ہیں۔ بلکہ بحسن خوبی ایک سپاہی سے زیادہ اچھی کار کردگی کامظاہرہ کرتے ہیں۔اب یہی دیکھ لیجیے جن ملکوں نے جدید ٹیکنالوجی سے کام لینا شروع کر دیا ہے وہاں کانظام حکومت بہتر کار کردگی کامظاہرہ کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ٹریفک کانظام ہو یا دوسرے عوامل سب اچھے طریقے سے سر انجام پارہے ہے ہیں۔ آپ اندازہ لگائیں جب ہر تعلیمی ادارئے اور مدرسے کے کلاس روم، دفاتر کے کمروں ،سڑکوں اور ٹریفک سنگلز پر سیکیورٹی کیمرے لگے ہوں گے اور یہ تصور رائج ہوجائے کہ ”کیمرے دیکھ رہے ہیں“ کون ہے جو اپنے کام سے کوتاہی برتے یا کوئی جرم کرئے گا۔ عوامی مقامات پر الیکٹرانک آلات نصب کرنے سے ہر خاص وعام کے خلاف بلاتفریق اور قانون کے یکساں اطلاق کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
نگرانی کے اس مربوط کمانڈ کنٹرول اور کمیونیکیشن کے مراکز کو چلانے والے پولیس افسران بہتر تربیت یافتہ اور قابل ہوں تاکہ وہ بڑے شہروں میں پیچیدہ صورت حال سے بہتر انداز میں نبٹ سکیں۔ فیصلہ سازی کے معیار اور وسائل کی تقسیم کو پڑھے لکھے اہلکاروں کی مراکز میں تعیناتی سے بہتر کیا جا سکتا ہے ۔

About Daily City Press

Check Also

وہ آیا، اس نے وہ کیا اس نے تاریخ رقم کر دی

اشعر سعید خان برطانیہ سے وہ آیا، اس نے وہ کیا اس نے تاریخ رقم …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *