واشنگٹن —
صدر براک اوباما نے کثیر ملکی تجارت اور عالمی ادارے کے ساتھ اپنی ٹھوس حمایت کے عزم کا اعادہ کیا۔
اقوام متحدہ سے اپنے حتمی خطاب میں، اُنھوں نے کہا ہے کہ ’’ہم اب تعاون اور یکجہتی کے بہتر معیار کا انتخاب کرکے اُسے اختیار کرسکتے ہیں؛ یا پھر ہم ایسی دلدل میں پھنس کر رہ جائیں گے جو عالمی انتشار کا شکار ہے اور بی الآخر تنازعات میں الجھے ملکوں، قبیلے، نسل اور مذہب کی بنیاد پر تقسیم کا حصہ بن جائیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’میں یہ بات بتا دوں کہ آج ہمیں آگےجانا چاہیئے، ناکہ پیچھے‘‘۔
اوباما نے، جو جنوری میں اپنی میعاد مکمل کریں گے، اپنے آٹھ برس کے دورہٴ صدارت میں حاصل کردہ پیش رفت کا ذکر کیا، جن میں شدید غربت کو کم کرنا، ایرانی جوہری تنازع کو حل کرنا، کیوبا کے ساتھ تعلقات کی بحالی، اور موسیماتی تبدیلی کے معاملے پر بین الاقوامی سمجھوتے پر متفق ہونا شامل ہیں۔
بقول اُن کے ’’یہ انتہائی اہم کام ہے، جِن کے نتیجے میں ہمارے لوگوں کی زندگی میں حقیقی تبدیلی آئی، اور ایسا نہ ہوتا، اگر ہم نے مل کر اس کی جہدوجہد نہ کرتے‘‘۔
تاہم، اُنھوں نے خبردار کیا کہ بین الاقوامی ضابطہٴ کار میں شدید دراڑیں پڑ چکی ہیں، جن کے باعث، بڑی سطح کا مہاجرین کا بحران، معاشی انتشار اور عدم تحفظ نظر آتا ہے۔
بقول اُن کے، ’’ہم دیکھتے ہیں کہ بہت ساری حکومتیں صحافیوں کی آواز کو دبا رہی ہیں، اختلاف رائے کو برداشت نہیں کیا جا رہا اور اطلاعات کی ترسیل پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں۔ نوجوانوں کے ذہن پر وار کرنے، کھلے اقدار والے معاشروں کے لیے خطرات پیدا کرنے اور بے گناہ تارکین وطن اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کے لیے دہشت گرد نیٹ ورک سماجی میڈیا کا استعمال کرتے ہیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’طاقتور ممالک بین الاقوامی قانون کی جانب سے عائد کردہ رکاوٹوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہ وہ الٹی بات ہے جو آج ہمار دنیا کو تبدیل کر رہی ہے‘‘۔
اس سے قبل، منگل ہی کو اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے جنرل اسمبلی میں مباحثے کی کارروائی کا آغاز کیا، جس دوران اُنھوں نے شام میں تنازع کے خاتمے پر زور دیا۔
صدر نے کہا کہ ’’آج اِس ہال میں حکومتوں کے وہ نمائندگان موجود ہیں جنھوں نے شام کے تنازع میں شام کی شہری آبادی کو نظر انداز کیا، سہولت کار بنے، رقوم فراہم کیں، یا پھر اُن کے خلاف روا رکھی جانے والی خلاف ورزیوں کا حصہ بنے۔ متعدد گروپوں نے بے گناہ شہری آبادی کو ہلاک کیا۔۔۔ اور تو اور، اِس کام میں حکومتِ شام سب سے زیادہ ملوث ہے‘‘۔
صدر براک اوباما نے کثیر ملکی تجارت اور عالمی ادارے کے ساتھ اپنی ٹھوس حمایت کے عزم کا اعادہ کیا۔
اقوام متحدہ سے اپنے حتمی خطاب میں، اُنھوں نے کہا ہے کہ ’’ہم اب تعاون اور یکجہتی کے بہتر معیار کا انتخاب کرکے اُسے اختیار کرسکتے ہیں؛ یا پھر ہم ایسی دلدل میں پھنس کر رہ جائیں گے جو عالمی انتشار کا شکار ہے اور بی الآخر تنازعات میں الجھے ملکوں، قبیلے، نسل اور مذہب کی بنیاد پر تقسیم کا حصہ بن جائیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’میں یہ بات بتا دوں کہ آج ہمیں آگےجانا چاہیئے، ناکہ پیچھے‘‘۔
اوباما نے، جو جنوری میں اپنی میعاد مکمل کریں گے، اپنے آٹھ برس کے دورہٴ صدارت میں حاصل کردہ پیش رفت کا ذکر کیا، جن میں شدید غربت کو کم کرنا، ایرانی جوہری تنازع کو حل کرنا، کیوبا کے ساتھ تعلقات کی بحالی، اور موسیماتی تبدیلی کے معاملے پر بین الاقوامی سمجھوتے پر متفق ہونا شامل ہیں۔
بقول اُن کے ’’یہ انتہائی اہم کام ہے، جِن کے نتیجے میں ہمارے لوگوں کی زندگی میں حقیقی تبدیلی آئی، اور ایسا نہ ہوتا، اگر ہم نے مل کر اس کی جہدوجہد نہ کرتے‘‘۔
تاہم، اُنھوں نے خبردار کیا کہ بین الاقوامی ضابطہٴ کار میں شدید دراڑیں پڑ چکی ہیں، جن کے باعث، بڑی سطح کا مہاجرین کا بحران، معاشی انتشار اور عدم تحفظ نظر آتا ہے۔
بقول اُن کے، ’’ہم دیکھتے ہیں کہ بہت ساری حکومتیں صحافیوں کی آواز کو دبا رہی ہیں، اختلاف رائے کو برداشت نہیں کیا جا رہا اور اطلاعات کی ترسیل پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں۔ نوجوانوں کے ذہن پر وار کرنے، کھلے اقدار والے معاشروں کے لیے خطرات پیدا کرنے اور بے گناہ تارکین وطن اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کے لیے دہشت گرد نیٹ ورک سماجی میڈیا کا استعمال کرتے ہیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’طاقتور ممالک بین الاقوامی قانون کی جانب سے عائد کردہ رکاوٹوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہ وہ الٹی بات ہے جو آج ہمار دنیا کو تبدیل کر رہی ہے‘‘۔
اس سے قبل، منگل ہی کو اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے جنرل اسمبلی میں مباحثے کی کارروائی کا آغاز کیا، جس دوران اُنھوں نے شام میں تنازع کے خاتمے پر زور دیا۔
صدر نے کہا کہ ’’آج اِس ہال میں حکومتوں کے وہ نمائندگان موجود ہیں جنھوں نے شام کے تنازع میں شام کی شہری آبادی کو نظر انداز کیا، سہولت کار بنے، رقوم فراہم کیں، یا پھر اُن کے خلاف روا رکھی جانے والی خلاف ورزیوں کا حصہ بنے۔ متعدد گروپوں نے بے گناہ شہری آبادی کو ہلاک کیا۔۔۔ اور تو اور، اِس کام میں حکومتِ شام سب سے زیادہ ملوث ہے‘‘۔